Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تذلیل، بھوک اور تشدد، اسرائیل کی گرفتاری مہم سے غزہ میں خوف و ہراس

ہیومن رائٹس مانیٹر کے مطابق شمالی غزہ سے کم از کم 900 افراد کو حراست میں لیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو حراست میں لیے جانے والے فلسطینیوں کو شدید مشکلات اور ہتک آمیز رویے کا سامنا ہے اور مردوں کو زیرجامہ تک اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق غزہ کے شمالی حصے میں اپنے خاندانوں سے بچھڑ جانے والے لوگ موجود ہیں، جہاں سے اسرائیلی فوج لوگوں کو حراست میں لیتی ہے اور ٹرک پر چڑھانے سے قبل زیرجامے اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے اس کے بعد انہیں ساحل سمندر کے قریب حراستی مرکز لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں سخت سردی میں بھوکا، پیاسا رہنا پڑتا ہے۔
پکڑے جانے والے فلسطینیوں کو حملوں کا شدید نشانہ بننے والے شہر بیت لہبیہ، جبالیہ اور اس کے قریبی علاقوں میں بنے حراستی مرکز میں لے جایا گیا اور اس سے قبل آنکھوں پر پٹی باندھ کر ٹرکوں میں سامان کی طرح بھرا گیا۔
ان میں سے کچھ نے بتایا کہ ان لوگوں کو کسی نامعلوم مقام پر تقریباً برہنہ حالت میں لے جایا گیا۔
ابراہیم نے بتایا کہ ’ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر نمبرز لکھے۔‘
30 سالہ ابراہیم ایک کمپیوٹر انجینیئر ہیں اور ان کو سات دسمبر کو لہیہ سے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور پوری رات حراست میں رکھا گیا۔‘
ان کے مطابق ’ہم ان کی شدید نفرت کو محسوس کر سکتے تھے۔‘
ماہرین اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں کو حراست میں لیے جانے کے سلسلے کو ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس کا مقصد خالی ہونے والے علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا ہے اور حماس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنا ہے۔
حراست میں لیے جانے والے افراد کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات پر اسرائیلی فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ان کو پروٹوکول کے مطابق ٹریٹ کیا گیا اور مطلوبہ کھانا اور پانی دیا گیا۔‘
فوج کے ترجمان ریئر ڈینیئل ہرگئی کا کہنا ہے کہ مردوں سے سوال جواب کیے گئے اور پھر لباس پہننے دیا جاتا اور اگر کہیں ایسا نہیں ہوا تو فوج یقینی بنائے گی ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کے بارے میں خیال ہے کہ وہ حماس کے ساتھ رابطے میں تھے اسی لیے پوچھ گچھ کے لیے دور لے جایا گیا ہے۔
انہوں نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
ایسی تصاویر اور ویڈیوز بھی منظرعام پر آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے فلسطینی مردوں کے ہاتھ پیچھے باندھے گئے ہیں اور ان کو گھٹنوں کے بل کھڑا کیا گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پکڑے جانے والے 15 افراد کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے یہ ہتک آمیز ہے، ان میں 12 سال سے 70 سال تک افراد شامل تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ پکڑے جانے والے افراد کا کسی گروہ سے تعلق نہیں اور جنگ شروع ہونے سے قبل وہ عام شہری کی زندگی گزار رہے تھے۔
ابو عدنان ال کاہلوت کا کہنا تھا کہ ’میرا صرف یہ جرم ہے کہ جنوبی علاقے کی طرف جاتے ہوئے میرے پاس زیادہ پیسے موجود نہیں تھے۔‘
ان کی عمر 45 برس ہے اور بلند فشار خون اور ذیابیطس کے مریض ہیں۔
ان کو آٹھ دسمبر کو حراست میں لیا گیا اور حالت خراب ہونے پر کئی گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔
یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر سے تعلق رکھنے والے رامے عبدو کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے کم از کم 900 افراد کو حراست میں لیا گیا۔

شیئر: