پاکستان میں عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے۔ ایک طرف امیدوار کاغذات جمع کروا رہے ہیں تو دوسری طرف الیکشن کمیشن انتظامات کو حتمی شکل دے رہا ہے۔
20 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔ 10 صفحات پر مبنی اس کوڈ آف کنڈکٹ میں بظاہر کچھ نیا نہیں ہے۔
ضابطہ اخلاق میں انتخابی مہم میں کیے جانے والے اخراجات کو کم کرنے کی شق اس بار بھی شامل کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
اس شق کے تحت امیدواروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ الیکشن میں اپنے اخراجات کے لیے الگ سے بینک اکاؤنٹ استعمال کریں گے اور جیتنے کی صورت میں ایک مہینے کے اندر ان اخراجات اور بینک اکاؤنٹ کی سٹیٹمنٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں گے۔
الیکشن کمیشن کے ضوابط میں اخراجات کی حد 10 لاکھ روپے رکھی گئی ہے، تاہم یہ واحد شق ہے جس پر عمل نہیں ہوتا۔
پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے سابق رکن رانا منان کہتے ہیں کہ ’اخراجات کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ہمارے کلچر میں ایسی چیزیں ہیں کہ اس شق پر عملدرآمد ایک پیچیدہ عمل ہے۔ امیدوار کے ساتھ ساتھ اس کے حلقے کے لوگ اور برادری کے لوگ بھی بہت خرچ کرتے ہیں تو اس کا حساب رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کے ضوابط میں یہ بات بھی درج ہے کہ اگر کسی امیدوار کی جگہ پر اس کی پارٹی یا دیگر لوگ اخراجات کرتے ہیں تو وہ اسی امیدوار کے تصور کیے جائیں گے۔
ایک اور سابق رکن اسمبلی ملک وحید کا تعلق لاہور سے ہے۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا اخراجات کے حوالے سے ضابطہ اخلاق پریکٹیکل نہیں ہے۔ اور میرا نہیں خیال اس پر کبھی عمل درآمد ہوا ہو۔ اس وقت جو مہنگائی کی صورت حال اور پیٹرول کی جو قیمتیں ہیں اس دفعہ کے انتخابات تو ویسے ہی جیب پر بہت بھاری ہوں گے۔ اس بات کا سب کو پتا ہے کہ الیکشن مہم کے اخراجات جو گوشواروں میں ظاہر کیے جاتے ہیں ان سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔‘
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایسے ضابطہ اخلاق کیوں بناتا ہے جس پر عمل درآمد کرنا نا ممکن ہے؟
