ملک میں گائے ، ایودھیا اور طلاق ثلاثہ جیسے جذباتی موضوعات پر دھینگا مشتی ایسے مرحلے میں ہورہی ہے جب ہندوستانی معیشت زوال کا شکار ہے
* * * * * معصوم مرادآبادی* * * * *
مویشیوں کی خریدوفروخت پر پابندیوں سے متعلق مرکزی حکومت کے تغلقی فرمان کے خلاف صوبائی حکومتوں کی شدید مخالفت کا دور جاری ہے۔ یہ فیصلہ ملک کے وفاقی نظام کے لئے چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ گائے کشی روکنے کے لئے جاری کئے گئے اس حکم نامے میں جانوروں کی خریدوفروخت کے ضابطے اتنے سخت کردیئے گئے ہیںکہ ان کا کاروبار ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ کسانوں کی بڑی تعداد کی روزی روٹی کا وسیلہ مویشیوں کو پالنا اور انہیں بازاروں میں فروخت کرنا ہے لیکن حکومت کے سرپر گائے کے تحفظ کا ایسا بھوت سوار ہے کہ اسے لاکھوں لوگوں کے بے روزگار ہونے اور ان کے بھوکے مرنے کی بھی فکر لاحق نہیں حالانکہ مدراس ہائی کورٹ نے ذبح کے لئے مویشیوں کی خریدوفروخت پر پابندی سے متعلق مرکز کے حکم نامے پر ایک ماہ کے لئے روک لگادی ہے لیکن اس حکم نامے کا اثر اتنا شدید ہے کہ مویشیوں کے کاروبار سے متعلق لاکھوں کسانوں کی نیند حرام ہے اور وہ اپنے مستقبل کے تعلق سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آج کل ملک میں تحفظ گاؤ کے نام پر گئو رکشکوں نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ نہ تو کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی عزت وآبرو۔ نہ صرف یہ کہ سنگھ پریوار کے بے روزگار کارکن گائے کے تحفظ کے نام پر لوگوں کے جان ومال سے کھلواڑ کررہے ہیں بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور اونچے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی اس معاملے میں اول جلول باتیں کرکے ماحول کو پراگندہ کررہے ہیں۔ راجستھان ہائی کورٹ کے جج جسٹس مہیش چند شرما نے اپنی سبکدوشی کے اگلے روز اس معاملے میں ایسی گل افشانیاں کی ہیں کہ لوگ اپنا سرپکڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جسٹس شرما نے سفارش کی ہے کہ گائے کو قومی جانور قرار دیاجانا چاہئے اور صوبے میں گاؤ کشی کی سزا 10برس سے بڑھا کر عمرقید کردینی چاہئے۔ عدالت سے باہر اخبارنویسوں کو ان سفارشوں کی اہمیت سمجھاتے ہوئے انہوں نے کچھ اور انکشافات بھی کئے ہیں جو واقعی تمام لوگوں کے لئے چونکادینے والے ہیں۔ ان کے مطابق مور کو قومی پرندہ اس لئے قرار دیاگیا ہے کیونکہ وہ تمام عمر برہمچاری (کنوارہ ) رہتا ہے۔ جج صاحب کی ذاتی معلومات کے مطابق مورنی بلکہ مور کے آنسو پی کر حاملہ ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس مقدمے کے پس منظر میں جسٹس شرما نے یہ تمہید باندھی ہے، اس کا تعلق راجستھان کی سب سے بڑی گئو شالہ کی بدنظمی سے تھا۔
اس گئو شالہ کے ملازمین تنخواہیں نہ ملنے کے سبب ہڑتال پر چلے گئے تھے جس کے نتیجے میں بارش کے سبب ایک ہفتہ کے دوران وہاں 500 گایوں کی موت ہوگئی تھی۔ عرضی گزار بھی جسٹس شرما کی ان سفارشوں پر حیرت زدہ تھے۔ ان کے مطابق عرضی میں نہ تو گئو کشی کے تعلق سے کوئی گزارش کی گئی تھی اور نہ ہی اس پر سزا میں اضافے کی کوئی اپیل کی گئی تھی۔ اس کے باوجود جسٹس شرما نے وہ سب کچھ کہا جو ان کے دائرۂ اختیار سے باہر تھا۔ جسٹس شرما نے مور کی مزید خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہاکہ مور کا پنکھ (پر) بھی کرشن نے اسی لئے لگایا کیونکہ وہ برہمچاری ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس شرما نے اپنے بیان میں گائے کو نیپال میں قومی جانور تسلیم کئے جانے کا حوالہ دیا تھا۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے نیپال کا حوالہ کیوں دیا کیونکہ نیپال ایک ہندو مملکت ہے جبکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ اس کے جواب میں جسٹس مہیش چند شرما نے کہاکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک سیکولر ہے یا ہندو کیونکہ ہم نے تو مور کو بھی قومی پرندہ قرار دے رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس مہیش چند شرما کے فرمودات کی گرفت خود سپریم کورٹ کے سابق جج اے کے گنگولی نے کی ہے۔ انہوں نے جسٹس شرما کے دعوے کو غیر ضروری اور سائنسی طورپر قطعی غلط قرار دیتے ہوئے کہاکہ جب میں سپریم کورٹ کا جج تھا تب میں نے دہلی کے تغلق آباد میں مورنی کو لبھانے والی مور کی آواز سنی تھی۔ جسٹس گانگولی نے جسٹس شرما کے گائے کو قومی جانور قرار دینے کے مشورے کی بھی گرفت کی ۔ انہوں نے کہاکہ یہ ان کی اپنی سوچ ہے ۔
گئو کشی روکنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ اس پر وسیع غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ جذبات سے کام لینے کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جسٹس شرما کے مذکورہ بیان پر سوشل میڈیا میں خوب بحث ومباحثہ ہورہا ہے اور اکثر لوگوں نے ان کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ مور ہمیشہ کنوارہ ہی رہتا ہے۔ اپنے دعوؤں کی دلیل کے طورپر بعض لوگوں نے اس سلسلے میں مور کے جوڑوں کی معنی خیز تصاویر بھی شیئر کی ہیں۔
دراصل اس ملک میں اب یہ بات عام ہوگئی ہے کہ لوگ اقتدار سے قرب حاصل کرنے کے شوق میں اپنی حدود سے تجاوز کررہے ہیں اور لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے ایسے شوشے چھوڑ رہے ہیں جو پوری طرح مضحکہ خیز ہیں لیکن درحقیقت یہ ہنسنے کا مقام نہیں بلکہ رونے کی جا ہے کیونکہ ہماری حکومت ملک کی گرتی ہوئی ساکھ اور معاشی زبوںحالی سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسے موضوعات کو ہوا دے رہی ہے جن کا کوئی بھی تعلق ملک کی ترقی اور خوشحالی سے نہیں۔ ملک میں گائے ، ایودھیا اور طلاق ثلاثہ جیسے جذباتی اور فرقہ وارانہ موضوعات پر دھینگا مشتی ایسے مرحلے میں ہورہی ہے جب دنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت کا تمغہ حاصل کرنے والی ہندوستانی معیشت زوال کا شکار ہے۔
حکومت کے غلط فیصلوں اور نوٹوں کی منسوخی نے معیشت کی رفتار انتہائی سست کردی ہے۔ حکومت خواہ کیسے ہی دعوے کرے لیکن ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، لوٹ مار اور جرائم میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کے غلط فیصلوں اور ہندتو کے ایجنڈے کو نافذ کرنے کی شدید خواہش کی وجہ سے ملک میں ملازمتوں کا فقدان ہورہا ہے اور لوگ بھکمری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں گائے کو قومی جانور قرار دینے یا مور کے آنسوؤں میں اپنے آنسو ملانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔