Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکیورٹی صورتحال اور انتخابات، وزارت داخلہ کون چلا رہا ہے؟ 

سرفراز بگٹی نے بطور نگراں وزیر داخلہ استعفیٰ دے دیا تھا۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں انتخابات کا عمل حتمی مرحلے میں پہنچ رہا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک بھر سے 22 ہزار 711 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہو چکے ہیں جبکہ دیگر تین ہزار 240 امیدوار اپنے کاغذات مسترد ہونے کے بعد اب عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
اس کے ساتھ ہی ملک میں سکیورٹی کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق نہ صرف مغربی سرحد کے پار سے عسکریت پسندوں نے پاکستانی فورسز پر حملے کیے ہیں بلکہ ملک کے اندر بھی کئی مقامات پر ان سے مڈبھیڑ ہوئی ہے۔ 
اتوار کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پاکستان کی بڑی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے قافلے کی گاڑیوں کے قریب بھی دہشت گردوں نے ایک حملہ کیا جس کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی خدشات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ 
انتخابی عمل جوں جوں آگے بڑھے گا اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں تیزی آئے گی، ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی مزید خراب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف لاپتہ بلوچ شہریوں کے اہل خانہ بھی ایک جلوس کی شکل میں کوئٹہ سے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں اور تقریباً 10 روز سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ 
ان کے احتجاج کے دوران متعدد مواقع پر ان کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ٹکراؤ ہوا جس کے بعد اسلام آباد پولیس اور حکومت پر شدید تنقید ہو رہی ہے اور یہ مسئلہ مزید تنازعات کا شکار ہو رہا ہے۔ 
جبکہ ملک سے غیر قانونی تارکین وطن کے انخلا  ڈالر اور دیگر اہم اشیا کی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے خصوصی آپریشنز بھی وزارت داخلہ کے تحت چل رہے ہیں۔ 
لیکن ایسی صورتحال میں اس وقت پاکستان میں کوئی وزیر داخلہ تعینات نہیں ہے اور گذشتہ ماہ 15 دسمبر 2023 کو اس وقت کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے اپنے عہدے سے استعفٰی دینے کے بعد ابھی تک کسی کو یہ اہم ترین قلمدان نہیں سونپا گیا۔ 

تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابی مہم میں تیزی آنے پر سکیورٹی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق اس وقت ملک میں امن و امان کا نظام ایک خودکار بیوروکریٹک طریقے سے چل رہا ہے اور تاحال کسی نئے وزیرداخلہ کی تعیناتی کے متعلق وزیراعظم ہاؤس سے کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی ہے۔ 
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضٰی سولنگی نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ابھی تک نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے یہ قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ 
تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا آنے والے دنوں میں کسی کو باقاعدہ وزیر داخلہ بنایا جائے گا یا نگراں حکومت کی بقیہ مدت کے دوران انوار الحق کاکڑ ہی وزیر داخلہ کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہیں گے۔ 
لیکن وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ نگراں حکومت کوئی نیا وزیر داخلہ تعینات نہ کرے اور اگلے ڈیڑھ ماہ ایسے ہی گزار دیے جائیں۔
وزارت داخلہ کون چلا رہا ہے؟ 
پاکستان میں کوئی بھی وزارت ایک وفاقی وزیر کی سربراہی میں چلتی ہے جو گریڈ 22 یا 21 کے سرکاری افسر کے ذریعے اپنے احکامات پر عمل درآمد کرواتا ہے۔ 
وزارت داخلہ کا طریقہ کار بھی بنیادی طور پر یہی ہے تاہم اس وزارت کی حساسیت کی نسبت اس کے امور میں دیگر اداروں کی مشاورت کا عمل دخل بھی ہوتا ہے اور بیشتر اوقات وزارت داخلہ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ گہرے رابطے کے ذریعے کئی معاملات طے کرتی ہے۔  
بالخصوص امن عامہ کے عمل اور انتخابات یا دوسرے اہم مواقع جیسا کہ کوئی بڑا احتجاج یا کسی اور ہنگامی صورتحال میں وزارت داخلہ دیگر حساس اداروں کے ساتھ رابطہ کاری کے ذریعے ہی کام کرتی ہے اور ہر بڑے فیصلے میں ان اہم اداروں کی رائے شامل کی جاتی ہے۔ 

وزیر داخلہ کا قلمدان نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے پاس ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کسی بھی معاملے پر اہم فیصلے کے لیے وزارت سے منسلک تمام ادارے اپنی سفارشات وزیر داخلہ کو دیتے ہیں جو اس کی منظوری وزیراعظم سے لیتا ہے۔ 
لیکن وزیر داخلہ کی عدم موجودگی میں یہ تمام ادارے سیکریٹری داخلہ کے ذریعے اپنی سفارشات وزیراعظم کو بھجواتے ہیں جو براہ راست تمام فیصلے کرتا ہے۔  
ایسے میں تمام فیصلوں پر بنیادی مشاورت، فیصلہ سازی اور ان کی وزیراعظم سے منظوری کے بعد ان پر عمل درآمد کا مکمل اختیار سرکاری افسران اور منسلک اداروں کے پاس آ جاتا ہے جو پھر زمینی سطح پر کام کرتے ہیں۔  
چونکہ پاکستان میں اس وقت انتخابات کا دور دورہ ہے اور ایسے موقع پر سکیورٹی صورتحال بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے خیال کیا جا رہا ہے کہ باقاعدہ وزیر داخلہ کے بغیر سرکاری افسران سکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر تمام نظام چلا رہے ہیں اور وہ اہم فیصلوں کی منظوری وزیراعظم سے لیتے ہیں۔ 
وزیر داخلہ انتخابی عمل کے لیے کتنا ضروری؟ 
پاکستان میں بیورو کریسی اور کابینہ امور پر عبور رکھنے والے سینیئر صحافی اور انگریزی اخبار دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کے خیال میں انتخابات کے انعقاد کے موقع پر ایک باقاعدہ تجربہ کار وزیر داخلہ کا ہونا ناگزیر ہے۔

وزارت داخلہ دیگر اداروں کی مشاورت سے سکیورٹی کے معاملات سرانجام دیتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انتخابات کے علاوہ بھی وفاقی وزیر داخلہ بہت اہم ہوتا ہے اور کوئی بھی حکومت چاہے وہ منتخب ہو یا نگراں اس میں باقاعدہ وزیر داخلہ ہونا ملک میں حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ 
’سبکدوش ہونے والے وزیر داخلہ نے خود کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور کچھ دیگر سیاست دانوں کو دہشت گردی کے خطرات کا سامنا ہے اور جس طرح خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سلامتی کی صورتحال ہے اور مولانا فضل الرحمان نے کہا بھی ہے کہ ان حالات میں وہ کیسے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، اور یہ بات صرف مولانا نہیں بلکہ اور لوگ بھی کر رہے ہیں ان صوبوں میں کہ وہاں پر حالات کافی خراب ہیں۔‘
انصار عباسی نے مزید کہا ’اس صورتحال میں جب آپ نے آٹھ فروری کو انتخابات منعقد کروانے ہیں، ہر صورت میں وزیر داخلہ کا ہونا بہت ہی ضروری ہے اور اگر سرفراز بگٹی صاحب چلے گئے ہیں تو وزیراعظم کو چاہیے کہ فوری طور پر کسی تجربہ کار فرد کو وزیر داخلہ تعینات کریں تا کہ اس سلسلے میں جو رابطہ کاری اور دیگر ذمہ داریاں ادا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ادا ہو سکیں۔‘

شیئر: