Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران میں داعش کے خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کا سوگ

اجتماعی نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ایرانی حکام نے خودکش بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی اجتماعی نمازہ جنازہ کے دوران خطاب کرتے ہوئے شدت پسند تنظیم داعش کے خودکش حملے کو اسرائیل اور امریکہ سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعے کو خطاب کے دوران ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور سپاہ پاسداران کے سربراہ نے بغیر ثبوت دیے امریکہ اور اور اسرائیل سے جوڑنے کی کوشش کی۔
اس موقعے پر لوگ ’مرگ بر امریکہ‘ اور ’مرگ بر اسرائیل‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے کسی ملک کا ذکر کیے بغیر کہا کہ ’دشمن ہمیشہ سے اسلامی جمہوریہ کی طاقت کو دیکھتا ہے۔ پوری دنیا اس طاقت اور اس صلاحیت کو تسلیم کر رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یقین رکھیے کہ پہل ہماری طاقتور فوج کے ہاتھوں میں ہے۔ ہماری افواج جگہ اور وقت کا تعین کرے گی۔‘
ایران کی سرکاری ٹی وی نے بھی حملے کو امریکہ سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔ ایک موقعے پر اس نے 2016 سے اس وقت کے امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات دوبارہ نشر کیے جس نے اس وقت کے صدر باراک اوبامہ پر غلط الزام لگایا تھا کہ وہ ’انتہا پسند تنظیموں‘ کے ’بانی‘ ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے کہا کہ ’وہ صرف امریکی سیاست اور صیہونیت کے ایجنٹوں اور کرائے کے فوجیوں کا کردار ادا کر سکتے ہیں تاہم ان کو خبردار کرتے ہیں، ۔۔۔ کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں، ہم ڈھونڈ نکال لیں گے۔ آپ غائب ہو کر عذاب الٰہی سے بچ نہیں سکتے۔ آگر آپ ایک ہزار سال تک بھی زندہ رہیں، ہم تلاش کر لیں گے۔‘
بدھ کو کرمان میں جنرل قاسم سلیمانی کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران دو دھماکے ہوئے جس میں کم از کم 89 افراد ہلاک اور 280 زخمی ہوئے تھے۔ شدت پسند تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ جنرل قاسم سلیمانی 2020 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

دھماکوں میں کم از کم 280 افراد زخمی ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دنیا بھر سے ان حملوں کی مذمت کی گئی۔ ویٹیکن نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ پوپ فرانسس نے کرمان میں حالیہ دھماکوں کے نتیجے میں انسانی جانوں کے نقصان پر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
یہ واضح نہیں کہ دونوں ایرانی رہنماؤں نے جمعے کو اپنے بیانات کے دوران داعش کے بجائے امریکہ اور اسرائیل پر اپنی توجہ کیوں مرکوز کی۔ ماضی میں داعش کی جانب سے حملوں کی ذمہ داری لینے کے بعد ایران جوابی کارروائیاں کر چکا ہے اور ان کارروائیوں میں شام میں بیلسٹک میزائل بھی داغے۔
تاہم حالیہ برسوں میں ہمسایہ ملک افغانستان میں داعش مضبوط ہوئی ہے۔ افغانستان کرمان سے مشرق کی جانب صرف 360 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
اگست 2021 میں کابل پر کنٹرول کے بعد سے ایران نے طالبان سے تعلقات برقرار رکھے ہیں حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کی سپلائی پر سرحدی جھڑپیں اور کشیدگی رہی ہے۔
ایران نے کہا ہے کہ بدھ کو دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 12 افغان شہری تھے۔

شیئر: