اگر میں باس ہوتی تو شایدمثالی ہوتی شاید اسی لئے میں باس نہیں بلکہ اک باس نما ’’حاکم‘‘ شوہر کی ’’محکوم‘‘بیوی ہوں
* * ** گل ناز۔کراچی* * *
میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر میں کسی کمپنی کی مالکن ہوتی یا کسی سرکاری دفتر میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوتی ،توپھر کیا ہوتا؟ جب مجھے یہ خیال آتا ہے تو اس ننھے سے سوال کے لاتعداد جوابات ذہن میں در آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں جاگتی آنکھوں خواب دیکھ رہی ہوںجو کچھ اس طرح ہے: میں ایک معروف رسالے کی ایڈیٹر انچیف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی مالکن بھی ہوں۔ایڈیٹرانچیف کا عہدہ اس لئے اپنے گلے ڈالا ہوا ہے تاکہ نہ صرف ملازمین پر کڑی نگاہ رکھ سکوں بلکہ کسی نہ کسی حد تک ’’انکم ٹیکس‘‘کی مد میں بھی بچت ہو سکے۔میں چونکہ ایڈیٹر انچیف ہوں اس لئے میری تنخواہ بھی 2لاکھ روپے ماہانہ ہے۔میں نے دفتر جانے اور واپس آنے کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں کر رکھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ملازمین کو پتہ چل جائے کہ باس کے آنے کا وقت کیا ہے تو انہوں نے جو ’’کھل‘‘کھیلنا ہوتا ہے وہ باس کے آنے سے پہلے کھیل لیتے ہیں اور جب باس کے آنے کا وقت ہو جاتا ہے تو نہایت معصوم و مظلوم بن کر کام میں جت جاتے ہیں۔اس لئے میں نے اپنے تمام ملازمین کو ایک مقولہ ذہن نشین کروا رکھا ہے کہ’’موت اور باس کی آمد کا کوئی علم نہیں،نجانے کب آ جائے‘‘۔ میں نے دفتر کے ہر شعبے میں چارٹ آویزاں کروا رکھے ہیں جن پر چند ’’سنہری اصول‘‘سیا ہ الفاظ میں تحریر ہیں کہ:
٭باس ہمیشہ صحیح کہتا ہے،وہ کوئی غلطی نہیں کر سکتا۔
٭اگر باس غلط ہے اور غلطی کر رہا ہے تو اصول نمبر ایک کو دوبارہ غور سے پڑھئے اور اسے ہمیشہ کے لئے یاد کر لیجئے۔
٭اگر باس بیمار ہو تو وہ چھٹی کر سکتا ہے یہ باس کا حق ہے۔
٭اگر ملازم بیمار ہو تو اس کی چھٹی کی جا سکتی ہے،یہ باس کا حق ہے۔
٭باس کے لئے گھر بار،اعزہ و اقربا اور محلے دار پہلے اور ملازمین بعد میں۔
٭ملازمین کے لئے سب سے پہلے باس۔ ان تحریری’’ زریں‘‘اصولوں کے علاوہ میں نے ملازمین کے لئے چند التزامات بھی وضع کر رکھے ہیں مثلاً :
٭٭ کوئی بھی ملازم ایک لباس مسلسل دو دن سے زیادہ نہیں پہنے گا۔
٭٭دفتر کے ہر ملازم کو ماہانہ بنیادوں پر پرفیوم فراہم کی جائے گی تاکہ ماحو ل خوشبودار رہے۔
٭٭ملازمین کے بچوں کے تمام تعلیمی اخراجات دفتر کے ذمے ہونگے تاکہ والدین ’’نہوت‘‘کا رونا نہ رو سکیں۔
٭٭دفتر میں سگریٹ پینے والوں کے لئے علیحدہ کمرہ موجود ہے اس لئے کوئی شخص اس کمرے کے سوا کہیں اور سگریٹ جلاتا یا پیتا دیکھا گیا تو اس کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔اس کے ساتھ ہی وہ ملازمین جو سگریٹ کے عادی نہیں،اگر ان میں سے کوئی شخص اسموکنگ روم میں نظر آ گیا تو اس کی آدھے دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔
٭٭ہمیں اس امر کا پورا احساس ہے کہ ہمارے معاشرے میں توتکار اور جوتم پیزاراکثر مردوں کا ’’طرۂ امتیاز‘‘ہے۔وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔اسی ’’حقیقت‘‘کے پیش نظردفتر میں ایک’’ غرفۂ فساد‘‘بھی قائم کیا گیا ہے جہاں کسی قسم کا فرنیچرموجود نہیں اس کے علاوہ اس کمرے کی دیواروں پر سیاہ روغن کروایا گیا ہے تاکہ فسادیوں پر وحشت طاری ہو اور وہ جلداز جلد اس کمرے سے نکل بھاگنے کی کوشش کریں۔
٭٭ہر ملازم کے گھر پندرھواڑہ بنیادوں پر اس وقت فون کیا جائے گا جب شوہر دفتر میں موجود ہو اور خاتون خانہ اکیلی ہو۔اس سے استفسار کیا جائے گا کہ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں،آپ کو ان سے اگر کوئی شکایت ہے تو بیان کیجئے،اس کا ازالہ کروایا جائے گا۔
٭٭تمام ملازمین کی بیویوں سے کہا جاتا کہ اگر ان کا شوہر کوئی زیادتی کرے یا جھگڑا کرے تو بلا چون و چرااس خاص نمبر پر فون کیا جائے،اس نمبر پر 24گھنٹے بات کی جا سکتی ہے۔بیوی کی شکایت سن کر اس سے کہہ دیا جاتا کہ جب آپ کا شوہر اپنی غلطی تسلیم کر کے آپ سے معافی مانگ لے تو مجھے اسی نمبر پر فون کر دیجئے گا۔اس کے بعد دفتر میں ملازم اس خاتون کے شوہر کو ’’حکم‘‘دیا جاتا کہ ابھی گھر جاؤ اور اہلیہ سے معذرت کر کے آؤ۔اگر اسی روز بیوی کا فون نہ آتا تو اس شوہر کے شوہر کی 2 دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی۔
٭٭دفتر میں موبائل فون پر اونچی آواز میں بات کرنے کی اجازت کسی کو نہ دی جاتی۔اگر کوئی ایسا کرتا تو اسے 100روپیہ جرمانہ کیا جاتا۔اسی طرح دفتر میں ایک خصوصی الارم لگوایا جاتا جو کسی بھی شخص کے گلے سے نکلنے والی اونچی آواز پر بجنا شروع کردیتا۔پھر اس ’’چلانے‘‘والے کا پتہ لگا کر اسے 1000روپے جرمانہ کیا جاتا۔اس اقدام کے ذریعے لوگوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر گفتگو کرنے کی عادت اپنی موت آپ مر جاتی۔
٭٭اگر کوئی شخص سیاسی گفتگو کرتا تو اسے فوری طور پر نوکری سے نکال دیا جاتا۔ایسا کوئی ایک واقعہ ہو جاتا تو کسی دوسرے کی جرأت نہ ہوتی کہ وہ کسی سیاسی جماعت یا رہنما کی باتیں دفتر والوں کے سامنے کرتا۔
٭٭ہر ماہ دفتر کے تمام عملے کے ساتھ اجلاس کیا جاتا اور ان کی شکایات وتجاویزسنی جاتیں اور قابل عمل ہونے پر انہیں فوری اپنا لیا جاتا۔
٭٭ہر سال دفتر کی جانب سے ایک عظیم الشان پارٹی دی جاتی جس میں تمام ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو مدعو کیا جاتااور ان کے بچوں کو اس تقریب میں مواقع دیئے جاتے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریںاور اپنے مستقبل کے خواب بیان کریں۔پھر کوشش کی جاتی کہ ان کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیا جائے۔ اگر میں باس ہوتی تو شایدمثالی ہوتی شاید اسی لئے میں باس نہیں بلکہ اک باس نما ’’حاکم‘‘ شوہر کی ’’محکوم‘‘بیوی ہوں۔