انجمن فروغ ادب بحرین کا 9واں عالمی مشاعرہ2017ء، سفیر پاکستان جاوید ملک مہمان خصوصی تھے
* * * * ادب ڈیسک۔بحرین* * * *
انجمن فروغِ ادب بحرین کے زیر اہتمام پہلا عالمی مشاعرہ 2004 ء میں منعقد ہوا تھا جس میں اس وقت بحرین میں مقیم شاعر معظم سعید کے شعری مجموعے’’محبتوں کا زوال دیکھا‘‘ کی تقریب رونمائی بھی ہوئی تھی۔ اس مشاعرے میں جاذب قریشی، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، عبید الرحمن عبیداور انور جلالپوری شریک ہوئے تھے۔ 2008ء میں دوسرا عالمی مشاعرہ بیادِ عطاشاد منعقد کیا گیا اس کے بعد یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔انجمن فروغِ ادب کے ان مشاعروں میں ہندوستان و پاکستان اور خلیجی ممالک کے معروف شعرا ء و شاعرات نے شرکت کی جن میں رسا چغتائی، افتخار عارف، وسیم بریلوی، معراج فیض آبادی ، خوامخواہ حیدر آبادی، عزم بہزاد ، ریحانہ روحی، اجمل سراج، شاہد ذکی، معظم سعید، وصی شاہ، یعقوب تصور، انور شعور، منصور عثمانی، ڈاکٹر کلیم قیصر، عزیز نبیل، صائمہ علی، فرحت عباس شاہ، پاپولر میرٹھی، عزم شاکری، واصف فاروقی، ڈاکٹر راجیش ریڈی، عامر قدوائی، صوفیہ بیدار، ندیم ماہر، احمد اشفاق، سید زوار، شوکت علی ناز، ڈاکٹر نکہت افتخار، انجم سلیمی، ڈاکٹر تیمور حسن، معین شاداب، سالم سلیم، عطاء الحق قاسمی، نصیر ترابی، عنبرین حسیب عنبر، عالم خورشید، نعیم اختر، مظفر ممتازاور قیصر مسعود کے نام شامل ہیں۔ انجمن فروغِ ادب کے ان تمام مشاعروں کے ساتھ ایک دیدہ زیب مجلہ ’’اظہار‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا جو بحرین میں مشاعروں کے ساتھ شائع ہونے والا پہلا مجلہ ہے۔
مجلہ شائع کرنے کی روایت دوسری تنظیموں نے بھی اپنائی اور ہمارے کام کو سراہا۔ انجمن فروغِ ادب نے اپنی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے امسال ایک اور یادگار عالمی مشاعرہ مقامی ہوٹل میںمنعقد کیا ۔ مشاعرے میں پاکستان سے امجد اسلام امجد، اعجاز رحمانی، عمیر نجمی، ہندوستان سے منصور عثمانی، امیر امام، شہزادہ کلیم ،سعودی عرب سے مونا نجمی اور عاطف چوہدری نے شرکت کی۔ مقامی شعراء میں سے احمدعادل، طاہر عظیم، عدنان تنہا، فیضی اعظمی اورعمر سیف کا انتخاب کیا گیا۔ اس خوبصورت اور یادگار شام کے مہمان خصوصی سفیر پاکستان جاوید ملک تھے۔ مسند صدارت کو امجد اسلام امجد نے رونق بخشی اور مہمان اعزازی اعجاز رحمانی تھے جبکہ نظامت کے فرائض منصور عثمانی نے خوش اسلوبی سے اداکئے ۔ ابتدائی حصے کی نظامت بحرین کی معروف شخصیت نور پٹھان نے کی۔
نورپٹھان نے حمدیہ کلمات سے بزم کی ابتداء کی اور کہاکہ ’’انتظامیہ نے آج ہندوستان، پاکستان اور سعودی عرب کے شعراء کو دعوت دی ہے تا کہ ان کا یہ 9واں عالمی مشاعرہ کامیاب ہو۔ صدر مشاعرہ امجد اسلام امجد نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی حیثیت کے شاعر ہیں، مصنف ہیں، ڈرامہ نویس اور کالم نگار ہیں۔ آپ سب ان سے واقف ہیں ۔بحرین سے ان کا بہت قریبی تعلق ہے ۔ہم ہمیشہ انہیں اپنے درمیان دیکھتے ہیں۔ ادب کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہاں دوستی کے رشتے قائم کئے ہیں جس کے باعث ہمیں ہمیشہ ان کا انتظار رہتا ہے، ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمارے مہمان اعزازی اعجاز رحمانی ایک سینیئر شاعر ہیں جن کا تجزیہ، فکر اور تجربہ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ محترم اعجاز رحمانی بحرین میں 25 سال قبل آئے تھے۔ اس وقت بھی ہمیں ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تھا ۔آج 25 سال بعدہمیں یہ اعزاز دوبارہ حاصل ہوا ہے۔
مجھے اس وقت کی ان کی ایک غزل کا مطلع آج بھی یاد ہے کہ:
احسان کے بدلے میں کیا خوب سزا دی ہے
اک شخص نے خوش ہوکر جینے کی دعا دی ہے
ان ابتدائی کلمات کے بعدناظم نے مشاعرے کے کنوینر طاہر عظیم کو شہزاد قمر کے اس شعر کے ساتھ دعوت دی:
*ہواؤ تم مجھے اونچا اڑاؤ، یہ تو ہونا ہے
*پہاڑو تم مرے رستے میں آؤ یہ نہیں ہوگا
طاہرعظیم نے تمام شعرا ء و سامعین کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ صدہا شکر خدائے بزرگ و برتر کا جس نے ہمیں آج اس قابل کیا کہ ہم ایک مرتبہ پھر بحرین میں عالمی مشاعرہ 2017 کا اہتمام کر رہے ہیں ۔یہ’’9واں عالمی مشاعرہ‘‘ ہے جو ایک تسلسل سے گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ یہ مشاعرے اردو دنیا میں بحرین کی شناخت بن چکے ہیں۔بحرین کی ہر دلعزیز شخصیت اور اردو کے نامور شاعر سعیدقیس گزشتہ سال ہمارے درمیان موجود تھے۔ 26 مئی 2016 ء کو ہم نے جشن سعید قیس منایا تھا۔ آج قیس صاحب ہم میں نہیں ۔ منگل 13 دسمبر کی صبح وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔
سعید قیس بحرین میں ایک مکمل شاعر تھے۔ ہم آج کی شام ان کے نام کرتے ہیں اور آئندہ سال عالمی مشاعرہ بیادِ سعید قیس منعقد کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ کسی بھی عالمی ادبی تقریب یا مشاعرہ کے کامیاب انعقاد کے لئے مالی معاونت کا حصول نہایت ہی اہم ہوتا ہے ۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ بحرین میں کچھ ایسی شخصیات موجود ہیں جو دامے درمے سخنے قدمے ہمارا ساتھ دیتی ہیں۔ ہم شکرگزار ہیں سفارت خانۂ پاکستان اور بطورِ خاص سفیر پاکستان عزت مآب جاوید ملک کے جنہوں نے اس شام کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔محترم شکیل احمد صبرحدی، احمد عادل، صہیب قدوائی، عدیل احمد ملک، یہ چار شخصیتیں ہمارے لئے4 ستونوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم اپنے معاونین جن میں محترم رضوان، عنایت اللہ، اے ڈی ظفر، اقبال جوز، سعد سلیم، آصف ریاض، ندیم احمد، الطاف عظیم ، محمد شفیق، حاجی اشفاق، محمود رفیق، افضل بھٹی اور دیگر شامل ہیں، ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر انجمن فروغ ادب کے سرپرست صہیب قدوائی، عدیل احمد ملک، مشاعرہ کمیٹی کے اراکین احمد عادل، قمرالحسن، محمد عرفان، طارق محمود، عدنان تنہا، مختارعدیل، کاتب زہیر، ظفرملک، خرم عباسی، احمد نواز، ساجدبٹ، عمرسیف، عبدالباسط رفیق، فیضی اعظمی اور دیگر دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ جن کی شبانہ روز محنت سے آج کی شام کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ سفیر پاکستان جاوید ملک نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے دوسری مرتبہ انجمن فروغِ ادب کے مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع ملا ہے ۔جب مجھے پتا چلا کہ محترم امجد اسلام امجد تشریف لارہے ہیں تو مجھے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ یہ میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔ہم آپ کے ڈرامے دیکھتے دیکھتے جوان ہوئے ہیں۔ آپ کی جو تصانیف، نظم یا نثر میں ہوں،وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔میں انجمن فروغ ادب کی انتظامیہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جن کی کاوشوں سے یہ مشاعرہ منعقد ہو رہا ہے ۔ہماری ایمبیسی اور ایمبیسی کی پوری ٹیم آپ کے ساتھ کھڑی ہے ۔میری ایک گزارش ہے کہ آپ سال میں ایک سے زائد مرتبہ ان مشاعروں کا انعقاد کیا کریں۔ امجد اسلام امجد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اندازہ ہے کہ مشاعرہ منعقد کرنا کتنا مشکل ہے اوراس کے لئے کیا کیا دشواریاں پیش آتی ہیں۔ ان نوجوانوں کی ہمت کو بہت داد جو وطن سے دور سب کو ایک چھت کے نیچے جمع کرلیتے ہیں۔ انجمن فروغِ ادب کے ہر مشاعرے کی طرح اس مشاعرے میں بھی ایک خوبصورت مجلہ شائع کیا گیا جس کی رسم اجراء سفیر پاکستان جاوید ملک نے ادا کی۔
اس موقع پر امجد اسلام امجد، اعجاز رحمانی، مراد علی وزیر (ایچ، او، سی سفارت خانۂ پاکستان) صہیب قدوائی، عدیل احمد ملک، احمد عادل، قمرالحسن، الطاف عظیم (چیئرمین الثقافہ) عنایت اللہ، محمد عرفان، اقبال جوز اور دیگر شخصیات موجود تھیں ۔ بعد ازاں سفیر پاکستان نے امجد اسلام امجد کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا اور امجد اسلام امجد نے انہیں اپنی 2کتابیں پیش کیں۔اس ابتدائی حصے کے اختتام میں تمام مہمانوں و مقامی شعراء کو اسٹیج پرآنے کی دعوت دی گئی اورہندوستان سے آئے ہوئے معروف ناظمِ مشاعرہ منصور عثمانی کو نظامت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ منصور عثمانی یوں گویا ہوئے: *جو اکثر دل سے اٹھتا ہے وہی سیلاب لائے ہیں *ہم اپنی خشک آنکھوں میں تمہارے خواب لائے ہیں
جسے تم بھول آئے تھے بزرگوں کی حویلی میں
وہی تہذیب لائے ہیں، وہی آداب لائے ہیں
جسے میرا سے نسبت ہے جسے غالب سے نسبت ہے
وہی خوشبو برائے خاطرِ احباب لائے ہیں
آج جسے ’’9واں عالمی مشاعرہ‘‘ کہا جارہا ہے، میں اسے9واں عالمی ادبی کارنامہ کہتا ہوں۔میں انجمن فروغ ادب کومبارکباد دیتا ہوں کہ یہ ایک تسلسل سے مشاعرہ منعقد کرتے ہیں۔ انہوں نے عطاشاد کو یاد کیا، انہوں عزم بہزاد کو بلایا اور بدقسمتی سے وہ چلے گئے تو انہیں بھی یاد کیا اور پچھلے سال جشن سعید قیس منعقد کرکے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ سعید قیس صاحب کا سفر ختم ہوا، وہ چلے گئے ۔بحرین نے ان کا قرض چکایا، یہ ایک بڑی بات ہے کہ انجمن فروغ ادب نے ان کی عظمتوں کا قرض ادا کیا ۔ ہماری سماجی زندگی میں قرض دینے والے بھی یاد رہتے ہیں قرض لینے والے بھی لیکن سب سے زیادہ قرض چکانے والے یاد رہتے ہیں۔ مشاعرہ کے پہلے شاعر عمر سیف ایک نوآموز شاعر ہیں ۔ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے گزشتہ کچھ سالوں سے بسلسلۂ روزگار بحرین میں مقیم ہیں ۔ناظم مشاعرہ نے انہیں اس شعر کے ساتھ دعوت کلام دی:
ناؤکاغذ کی چھوڑ دی میں نے
اب سمندر کی ذمہ داری ہے
٭٭عمر سیف
سیدھا پہن لیا ، کبھی الٹا پہن لیا
اترا جو اک نقاب تو دوجا پہن لیا
مجھ کو پکارتی رہیں رستے کی گردشیں
پیروں میں گردباد کا جوتا پہن لیا
مشاعرے کے اگلے شاعر فیضی اعظمی تھے اعظم گڑھ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے فیضی اعظمی کچھ عرصہ قبل ہی بحرین آئے ہیں اور مشاعرہ پڑھنے کے ہنر سے واقف ہیں:
٭٭فیضی اعظمی
روح کے دشت میں کچھ روز ٹھہر جاؤگے کیا
دل یہ خالی ہے حسیں یادوں سے بھر جائوگے کیا
کوئی مٹی کے سوا کچھ نہیں لیکر جاتا
تم یہاں سے میاں! کل لے کے گُہر جاؤگے
کیا جہلم کے نوجوان شاعر عدنان تنہا 2008 سے بحرین میں مقیم ہیں ،2013 سے شعر کہہ رہے ہیں:
٭٭عدنان تنہا
زندگی میں قرار تھا ہی نہیں
دل مگر سوگوار تھا ہی نہیں
ایک غم تھا جو کھا گیا مجھ کو
ایک غم جو شمار تھا ہی نہیں
٭٭طاہرعظیم
ان اندھیروں سے لے کے جاؤں گا
میں تجھے روشنی دکھاؤں گا
وہ جو مشکل سے یاد کرتا ہے
اس کو مشکل میں یاد آؤں گا
٭٭٭
چاند ہو تم تو کوئی ایک ستارہ میں ہوں
شام ڈھلتے ہی نمودار ہوئے ہم دونوں
٭٭عاطف چوہدری
مسئلہ یہ بھی تو درپیش ہے اس بار مجھے
جس جگہ درتھا، نظر آتی ہے دیوار مجھے
خواب ایسا تھا کہ آنکھوں سے سنبھالا نہ گیا
نیند ایسی تھی جو کرتی رہی بیدار مجھے
٭٭احمد عادل
سازِ ہستی پہ ابھی جھوم کے گالے مجھ کو
زندگی سے یہ کہو اور نہ ٹالے مجھ کو
یہ تو ساقی کی جگہ اور کوئی بیٹھا ہے
یہ جو گن گن کے پلاتا ہے پیالے مجھ کو
٭٭٭
حوالہ زندگی کا بھی تمہاری زلف جیسا ہے
بکھرنا، پھر سنور جانا ، سنورنا، پھر بکھر جانا
٭٭مونا نجمی
یہ جیت بن نہ جائے کہیں ہار دیکھنا
سودا ہے دل کا ذوق خریدار دیکھنا
مطلب تو پہلے لفظ مسیحا کا جان لو
پھر اس کے بعد حالت بیمار دیکھنا
٭٭شہزادہ کلیم
دوریاں چبھتی ہیں آنگن کی فصیلوں کی طرح
دو قدم بھی مجھے اب لگتا ہے میلوں کی طرح
لوٹ بھی آ کہ ترا راستہ تکتے تکتے
خشک ہوجائیں نہ آنکھیں کہیں جھیلوں کی طرح
٭٭ عمیر نجمی
تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ
میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں، بات سمجھ
دل و دماغ ضروری ہیں زندگی کے لئے
یہ ہاتھ پائوں اضافی سہولیات سمجھ
٭٭٭
بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں
وہ کہہ رہا ہے مجھے رائگاں تو ہاں ہوں میں
میں خود کو تجھ سے مٹاؤں گا احتیاط کے ساتھ
تو بس نشان لگادے جہاں جہاں ہوں میں
٭٭٭
یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کروگے
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
٭٭ امیرامام
وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا
میں تھک کے مسکرا دیا جب رو نہیں سکا
٭٭٭
فضا میں اڑتے ہوئے دور تک شرارے گئے
سلگتی رات سے کچھ خواب جب گزارے گئے
کہ جیت سکتے تھے ، کہنے سے فائدہ کیا ہے
تمام کھیل جو اس زندگی میں ہارے گئے
٭٭منصورعثمانی
ایسا نہ ہو انجام پہ پچھتاؤ کسی دن
بہتر ہے کہ تم خود ہی سنبھل جائو کسی دن
شیشے سے عداوت کا یہی حال رہا تو
پتھر پہ بھی ہوجائے گا پتھرائو کسی دن
ہر روز یہ کہتے ہو کہ حالات برے ہیں
حالات کی گتھی بھی تو سلجھائو کسی دن
محفل میں سمجھ لیتے ہیں کچھ لوگ اشارے
تنہائی میں آکر ہمیں سمجھائو کسی دن
٭٭اعجاز رحمانی
جتنے افراد خاندان میں ہیں
اتنی دیواریں درمیان میں ہیں
اپنے دشمن کو دے دیئے ہم نے
تیر ہی اب کہاں کمان میں ہیں
دھوپ ان کے بھی انتظار میں ہے
وہ مسافر جو سائبان میں ہیں
راہبر سوگئے ہمسفر سوگئے
کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے
بے گھروں کو تکلف سے کیا واسطہ
نیند آئی سرِ راہ گزر سو گئے
ہم تو اعجاز پھولوں پہ بے چین ہیں
جن کو سونا تھا وہ دار پر سو گئے
٭٭امجداسلام امجد
اب تک نہ کھل سکا کہ مرے روبرو ہے کون
کس سے مکالمہ ہے پس گفتگو ہے کون
ہونا تو چاہئے کہ یہ میرا ہی عکس ہو
لیکن یہ آئنے میں مرے روبرو ہے کون
٭٭٭
’’بے وفائی کی مشکلیں‘‘
جو تم نے ٹھان ہی لی ہے
ہمارے دل سے نکلو گے
تو اتنا جان لو پیارے!
سمندر سامنے ہوگا
اگر، ساحل سے نکلو گے
ستارے جن کی آنکھوں نے
ہمیں اک ساتھ دیکھا تھا
گواہی دینے آئیں گے
پرانے کاغذوں کی بالکونی سے
بہت سے لفظ جھانکیں گے
تمہیں واپس بلائیں گے
کئی وعدے
فسادی قرض خواہوں کی طرح
رستے میں روکیں گے
تمہیں دامن سے پکڑیں گے
تمہاری جان کھائیں گے
چھپا کر کس طرح چہرہ
بھری محفل سے نکلو گے؟
ذرا پھر سوچ لو جاناں!
نکل تو جائو گے شاید
مگر، مشکل سے نکلو گے
٭٭٭
دیواروں پر درج ہے کیا کیا
دیکھنے والا پڑھتا کب ہے
تم ناحق ناراض ہو اتنے
یہ مِنت ہے، شکوہ کب ہے
جان رہے گی یا جائے گی
دیوانوں نے سوچا کب ہے
انجمن فروغِ ادب بحرین کا نواں عالمی مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا جسے کامیاب بنانے میں انتظامیہ نے دن رات محنت کی تھی، میں ان سطور میں اس کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر تمام دوستوں کو مباک باد پیش کرتا ہوں۔