Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی سلامتی کمیٹی کا ’پیغام بالکل واضح لیکن ایرانی اقدام کی وجہ سمجھ نہیں آئی‘

ایران کی جانب سے پاکستان کے اندر کیا جانے والا حملہ غیرمعمولی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران کے ساتھ کشیدگی کے بعد ہونے والے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت قطعی طور پر ناقابل تسخیر اور مقدس ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق ’کسی کی طرف سے کسی بھی بہانے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو پامال کرنے کی کوشش کا ریاست کی پوری طاقت سے جواب دیا جائے گا۔‘
اس اعلامیے میں جہاں ملکی سالمیت کے ہر قیمت پر دفاع کا عزم کیا گیا وہیں مستقبل کے تعلقات کی نوعیت کی جانب بھی کچھ اشارے کیے گئے ہیں۔ 
اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان موجودہ متعدد مواصلاتی ذرائع کو علاقائی امن اور استحکام کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے کے سکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے باہمی طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔‘ 
ایران کی جانب سے 16 جنوری کو پاکستان کے اندر کیا جانے والا حملہ غیرمعمولی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور تین دن گزرنے کے بعد بھی ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے اس موضوع پر بحث و تجزیہ جاری ہے۔ 
اسی بارے میں رائے جانے کے لیے اردو نیوز نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹیڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر صفدر سیال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی کے آج کے اعلامیے میں موجود پیغام بڑا واضح ہے۔ اس میں جہاں ایک جانب صورتحال کو ڈی فیوز کرنے کی بات ہوئی وہیں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ ملکی سالمیت کا دفاع ہماری اولین ترجیح ہے۔ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے۔‘ 
ایران کی جانب سے اس انتہائی اقدام اور پاکستان کے ردعمل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ اس سوال کے جواب میں صفدر سیال کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ایران کی پڑوسی ممالک کے متعلق پالیسی اتنی سخت گیر رویے پر مبنی نہیں ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی روایت بھی کافی مستحکم رہی ہے۔‘ 
’پاکستان اور ایران کی سرحد سے جڑے امور کوئی بھی ملک یک طرفہ طور پر نہیں چلا سکتا۔ بالخصوص جب دوںوں جانب سے عسکریت پسندوں کے حملوں کا خدشہ موجود رہتا ہو۔  اس لیے لگتا یہی ہے کہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔‘ 

’ایرانی حملہ ذرا بڑا واقعہ تھا‘ 

صفدر سیال کا مزید کہنا تھا کہ ’ویسے تو ایران پاکستان کی سرحد پر کبھی کبھار جھڑپیں ہو جاتی ہیں لیکن وہ بڑی خبر نہیں بنتیں۔ وہاں موجود دونوں جانب کی باڈر سکیورٹی فورسز کے حکام ان معاملات کو حل کر لیتے ہیں لیکن ایران کا حالیہ حملہ ذرا بڑا واقعہ تھا۔ اس کے بعد پاکستان کی حکومت اور فوج پر داخلی دباؤ بھی تھا کہ اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ سو دو دن بعد ایسا ہی کیا گیا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’سوال یہ ہے کہ ایران جو کہ اس وقت مشرق وسطیٰ کی غیرمعمولی صورتحال میں الجھا ہوا ہے، اسے ان حالات میں ایسے غیرمعمولی اقدام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس نکتے پر ابھی مختلف طرح کے تجزیے کیے جا رہے ہیں۔‘

قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ملکی سالمیت کے ہر قیمت پر دفاع کا عزم کیا گیا (فائل فوٹو: اردو نیوز)

ایرانی قیادت کی پالیسی کے بارے میں کچھ کہنا مشکل 

دونوں ممالک کے مستقبل کے روابط کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی پاکستان اور ایران کے وزراء خارجہ کی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد جاری بیان میں جو کشیدگی کم کرنے کی بات ہوئی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔‘ 
’تاہم ایران کی قیادت کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ وہ مستقبل میں کیا پالیسی اختیار کریں گے۔‘ 
ایران کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے اندر حملوں کے بعد پاکستان کے مختلف طبقات کی جانب سے مطالبات بھی شروع ہو گئے تھے جس کے بعد پاکستان نے ایران کے اندر بلوچ ’عسکریت پسندوں‘ کو نشانہ بنایا۔ 
جب یہ واقعہ ہوا تو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی ملک سے باہر تھے۔ اس کے بعد انہیں اپنا دورہ مختصر کر کے واپس آنا پڑا اور آج انہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدر کی۔  

شیئر: