Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایودھیا میں ’مسجد محمد بن عبداللہ ‘ تاج محل سے بھی بڑا شاہکار ہو گی: انڈین وزیر

انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن (آئی آئی سی ایف ) کی ڈویلپمنٹ کمیٹی کے سربراہ اور مہارشٹر کابینہ کے اقلیتی امورکمیشن کے چیئرمین حاجی عرفات شیخ نے کہا ہے کہ’ ایودھیا میں ’محمد بن عبداللہ ‘ کے نام سے عظیم الشان جامع مسجد‘ تعلیمی ادارے اور ہسپتال کی تعمیر کا آغاز مئی 2024 میں کیا جائے گا جس کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہیں۔‘
مکہ مکرمہ میں اردو نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ہماری خواہش ہے ’مسجد محمد بن عبداللہ ‘ کا افتتاح امام حرم شیخ عبدالرحمان السدیس کریں یا ایک بار نماز جمعہ کی امامت کرائیں تاکہ اس عظیم الشان مسجد کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوجائے۔‘
2019 میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایودھیا کے مسلمانوں کو دھنی پور نامی گاؤں میں رام مندر سے تقریباً 25 کلومیٹر (تقریباً 15 میل) کے فاصلے پر ایک اور مسجد بنانے کے لیے زمین بھی مختص کی تھی۔
ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا افتتاح پیر 22 جنوری کو کر دیا گیا۔ اس حوالے منعقدہ تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی نے خطاب کیا اور ملک کی نامور شخصیات نے شرکت کی۔
اس موقعے پر ایودھیا شہر میں جشن کا سماں تھا اور ہر طرف زعفرانی رنگ نمایاں رہا۔
تقریب میں شرکت کے لیے بالی وڈ، کرکٹ اور سیاست کے میدانوں سے مشہور شخصیات کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے۔
یہ مندر انڈیا کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ تعمیر ہو رہا ہے اور برسوں تک اس جگہ کا تنازع رہا ہے کیونکہ یہاں ہندو اور مسلمان دونوں اس پر دعویٰ کرتے رہے ہیں۔
کئی دہائیوں کے تنازع کے بعد سپریم کورٹ نے 2019 میں ہندووں کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا اور جس جگہ مسجد موجود ہے، اس جگہ پر مندر بنانے کی اجازت دی تھی۔

’مسجد میں نو ہزار افراد باجماعت نماز ادا کر سکیں گے‘

حاجی عرفات شیخ کا کہنا تھا ’مسجد کی جگہ انڈین سپریم کورٹ نے دی ہے جس کا سنگ بنیاد رکھنے کی کارروائی مکمل کرلی گئی۔ مسجد 5 ایکڑ رقبے پر تعمیر کی جائے گی جبکہ اس سے ملحق 6 ایکٹر اراضی مزید حاصل کی گئی ہے جس کے بعد مسجد اور اس سے ملحق تعلیمی و طبی اداروں کا مجموعی رقبہ 11 ایکڑ ہو جائے گا۔ مجوزہ تعمیر کے بعد تاج محل سے بھی زیادہ بڑا،خوبصورت اور شاہکار ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا ’مجوزہ مسجد کمپلیکس کے اندر تقریباً بیک وقت نو ہزار افراد جماعت کے ساتھ نماز ادا کر سکیں گے جبکہ عیدین کی نماز کے لیے بیرونی صحنوں اور مسجد سے ملحق سبزہ زاروں کو ملا کر 50 ہزار سے زائد افراد کی گنجائش ہو گی۔‘
ان کے مطابق ’اسلام کا آغاز ’اقرأ‘ سے ہوا جسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسجد کے ساتھ انڈیا کے بہترین میڈیکل و ڈینٹل کالج کی شاخیں اور لا کالجز اور انٹرنیشنل سکولز قائم کیے جائیں گے جہاں ضرورت مند طلبہ کو مفت معیاری تعلیم فراہم کی جائے گی۔‘
’کالجز کے علاوہ مفت علاج معالجہ کےلیے تمام تر طبی ضروریات سے مزین ہسپتال بھی قائم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں تین سے 5 ہزار افراد کے لیے روزانہ کی بنیاد پر تین وقت کے مفت کھانے کا بھی انتظام کیا جائے گا۔‘

اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ یہ وزیراعظم نریندر مودی کی الیکشن مہم کا منصوبہ ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مسجد کی تعمیر کے حوالے سے اختلافی امور پر اسد الدین اویسی اور دیگر انڈین رہنماؤں سے ہم آہنگی سے متعلق سوال پر حاجی عرفات شیخ کا کہنا تھا ’ہم نےاپنی میٹنگ میں کہا کہ ایک اینٹ حاجی عرفات کو رکھنے دیں اور ایک آپ رکھیں تاکہ اختلافات کو دور کرکے اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے مکمل طورپر ہم آہنگی پیدا کی جائے، مسجد جسے ’محمد بن عبداللہ ‘ کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے،  اس نام مبارک کی وجہ سے اس دیش میں برکتیں آئیں گی اور نور کی بارش ہو گی۔‘
’میرا یہ کہنا ہے کہ مسجد اور مدرسے کے نام پر کہیں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔‘
جہاں تک ان کے علما اور سیاسی عمائدین کے سوال تھے کہ مسجد کے بدلے میں مسجد نہیں ہو سکتی، ان کے جواب میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ’سرکار نے ہمیں زمین نہیں دی بلکہ سپریم کورٹ نے دی ہے جس کے بعد ہم وہ اضافی 6 ایکٹر زمین خریدی ہے۔ اس طرح جس زمین پر مسجد تعمیر کی جائے گی وہ ہمارے پیسے سے خریدی جائے گی جس سے شرعی مسئلہ اور اختلافی بات ختم ہو جائے گی۔‘

کیا یہ نریندر مودی کی الیکشن مہم کا منصوبہ ہے؟

واضح رہے کہ نریندر مودی 2014 میں ملک کی معیشت میں اصلاحات کرنے اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کرنے کے عہد کے ساتھ اقتدار میں آئے، لیکن انہوں نے ہندوتوا کے ایجنڈے کو بھی بہت زیادہ آگے بڑھایا، ایک ایسا نظریہ جس کا خیال ہے کہ انڈیا کو ہندوؤں کی سرزمین بننا چاہیے۔

کئی دہائیوں کے تنازع کے بعد سپریم کورٹ نے 2019 میں ہندووں کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا(فائل فوٹو: اے ایف پی)

بی جے پی کے دور حکومت میں بہت سی ریاستوں نے قانون سازی کی گئی ہے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ہندوتوا کی جڑیں مضبوط کی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، جس میں بعض امتیازی قوانین شامل ہیں۔
نریندر مودی کے اپنے ووٹروں سے اہم وعدوں میں سے ایک مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کرنا تھا۔
بہت سی اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ یہ وزیراعظم نریندر مودی کی الیکشن مہم کا منصوبہ ہے۔

شیئر: