مصر کے ساتھ کشیدگی کا امکان، اسرائیل کا غزہ کی جنوبی سرحد تک لڑنے کا عزم
مصر کے ساتھ کشیدگی کا امکان، اسرائیل کا غزہ کی جنوبی سرحد تک لڑنے کا عزم
جمعہ 26 جنوری 2024 6:34
سات اکتوبر کے بعد اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
غزہ کی پٹی میں جنوب کی جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے حماس کے خلاف کارروائی کے باعث تل ابیب کو اپنے پڑوسی ملک مصر کے ساتھ اپنے پرامن تعلقات کو نقصان پہنچنے کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سامنا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مصر اور غزہ کے درمیان ایک تنگ سی پٹی پر پہلے ہی دونوں فریقین کے درمیان تنازع ہے۔
اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے غزہ کے جنوب میں رفح تک فوجی کارروائیوں کا دائرہ بڑھائیں گے اور مصر کے ساتھ سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے بفر زون فلاڈیلفی راہداری کو اپنے کنٹرول میں لینا ہو گا جسے دونوں ممالک کے درمیان 1979 کے امن معاہدے کے تحت غیرفوجی بنا دیا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں اسرائیلی وزیراعظم بنامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس اس سرحد کے ذریعے ہتھیاروں کی سمگلنگ کر رہا ہے جس کی مصر نے سختی سے تردید کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا تھا کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہم اس کی خلاف ورزی کو بند نہیں کر دیتے۔
اس بیان کے بعد مصر کی جانب سے ایک سخت انتباہ سامنے آیا ہے کہ اس زون میں اسرائیلی فوجیوں کی تعیناتی سے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔ مصر میں اس کو صلاح الدین راہداری کہا جاتا ہے۔
پیر کو مصر کی سٹیٹ انفارمیشن سروس کی سربراہ ضیا راشوان نے کہا تھا کہ ’اس سمت میں اسرائیل کی جانب سے کوئی بھی اقدام مصر اور اسرائیل کے تعلقات کے سنگین خطرے کا باعث بنے گا۔‘
مصر کے تحفظات
مصر کو خدشہ ہے کہ رفح پر اسرائیلی حملہ سرحد پار سے آنے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو جزیرہ نما سینائی میں دھکیل دے گا۔
اسرائیلی فضائی اور زمینی کارروائیوں کی وجہ سے 10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی رفح اور گرد و نواح میں منتقل ہوئے ہیں۔
اگر اسرائیل رفح پر حملہ کرتا ہے تو فلسطینیوں کے پاس بھاگنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ سنہ 2008 میں حماس کے کنٹرول کے بعد اسرائیل اور مصر کی جانب سے غزہ پر مسلط کردہ ناکہ بندی کے آغاز میں فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد اس وقت مصر میں داخل ہو گئی تھی جب حماس نے سرحدی دیوار کو توڑ دیا تھا۔
دونوں ممالک کے درمیان رابطہ کاری میں شامل ایک مصری فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مصر نے اسرائیلیوں سے کہا ہے کہ رفح پر کسی بھی زمینی حملے سے قبل اسرائیل کو فلسطینیوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت دینی چاہیے۔
ایک اور مصری اہلکار نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مصر نے اسرائیل اور امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اس علاقے میں کوئی بھی فوجی کارروائی امن کو تباہ کر سکتی ہے اور ’ہم ایسا کوئی بھی اقدام برداشت نہیں کریں گے۔‘
فلاڈیلفی راہداری کی اہمیت
یہ راہداری ایک تنگ سی پٹی ہے جو تقریباً 14 کلومیٹر طویل ہے۔ اس میں مصر کے ساتھ رفح کی راہداری بھی شامل ہے۔ یہ غزہ کی واحد راہداری ہے جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں۔
یہ ایک غیر فوجی زون ہے اور 1979 کے امن معاہدے کے تحت ہر فریق کو نہایت کم تعداد میں فوجی یا سرحدی محافظ تعینات کرنے کی اجازت ہے۔ معاہدے کے وقت اسرائیلی فوجیوں کا غزہ پر کنٹرول تھا اور سنہ 2005 میں اسرائیل نے اپنی افواج اور آبادکاروں کو واپس بلا لیا تھا۔
2007 میں غزہ پر کنٹرول کے بعد حماس کا اس راہداری پر کنٹرول قائم تھا۔ سمگلنگ کے لیے استعمال ہونے والی سرنگیں غزہ اور مصر کی سرحد کے نیچے کھودی گئیں۔ کچھ سرنگیں بڑی ہیں جو گاڑیوں کے گزرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ سرنگیں حماس کے ہتھیار اور سامان لانے کا ذریعہ ہیں جبکہ غزہ کے رہائشی تجارتی سامان، مال مویشی اور تعمیراتی سامان تک سمگل کرتے تھے۔
وقت کے ساتھ مصر نے جزیرہ نما سینائی میں عسکریت پسندوں کا مقابلہ کیا اور اس کی فوج نے یہ کہتے ہوئے سینکڑوں سرنگوں کو تباہ کیا کہ یہ سینائی میں ہتھیار لانے کے لیے استعمال ہو رہی تھیں۔
مصر نے اپنی سرحدی دیوار کو مزید مضبوط کیا اور غزہ سے متصل پانچ کلومیٹر تک آبادی کو ہٹا دیا اور یہاں صرف فوجی اور پولیس اہلکار تعینات ہیں۔
جنگ کے دوران ہونے والی پیشرفت
ایک مصری فوجی اہلکار کے مطابق دسمبر کے وسط میں اسرائیل نے مصر سے فلاڈیلفی راہداری پر اپنی فوج تعینات کرنے کی باضابطہ درخواست کی، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مصر کا بنیادی خدشہ یہ ہے کہ علاقے میں کسی زمینی کارروائی کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی سینائی میں داخل ہو جائیں گے۔
مصر کو خدشہ ہے کہ اگر فلسطینی سینائی میں داخل ہو گئے تو اسرائیل انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دے گا۔
مصر نے خبردار کیا تھا کہ یہ اسرائیل اور حماس کے تنازع کو اس کی سرزمین پر لے آئے گا اور ممکنہ طور پر امن معاہدے کو تباہ کر دے گا۔