Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواجہ آصف اور ریحانہ ڈار کا مقابلہ، سیالکوٹ کس طرف کھڑا ہو گا؟

لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد جب آپ سیالکوٹ شہر میں داخل ہوتے ہیں تو بالکل ہی یہ احساس نہیں ہوتا کہ الیکشن محض 10 دن کی دوری پر ہیں۔
الیکشن کی گہما گہمی سے خالی سیالکوٹ کی مرکزی شاہراہ کشمیر روڈ کے آغاز پر آپ کے ذہن میں بے ساختہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا سیالکوٹ میں الیکشن نہیں ہو رہے؟
لیکن شہر کے وسط میں پہنچنے پر تأثر میں کچھ تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ اب آپ کو کئی امیدواروں کے پوسٹرز اور بینرز دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں خواجہ آصف کی تصاویر اور مسلم لیگ ن کے شیر کے نشان والے بینرز کی بہتات ہے۔
پیپلزپارٹی اور آزاد امیدواروں کی حاضری بھی ان بینرز میں دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اگر کچھ نہیں دکھائی دیتا تو وہ تحریک انصاف کی امیدوار ریحانہ امتیاز ڈار یا پی ٹی آئی کے دیگر امیدواروں کے بینرز ہیں۔
کشمیر روڈ کا وسطی علاقہ ختم ہوتے ہی فوجی چھاؤنی شروع ہو جاتی ہے جہاں پاکستان چوک میں بائیں طرف خواجہ آصف کی رہائش گاہ ہے۔
سیالکوٹ شہر کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 71 کا شمار ان حلقوں میں ہو رہا ہے جہاں سخت ترین مقابلہ متوقع ہے۔
ایک طرف مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ آصف ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ریحانہ امتیاز ڈار ہیں۔ ریحانہ امتیاز ڈار، عثمان ڈار کی والدہ ہیں۔
عثمان ڈار نے کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف سے دوری اختیار کر لی تھی تاہم ان کی والدہ اب بھی میدان میں ہیں۔

خواجہ آصف کا نسبتاً غیرمطمئن چہرہ

فوجی چھاؤنی میں ویسے تو انتخابی بینرز لگانے پر پابندی ہے البتہ خواجہ آصف کے ڈیرے اور گھر کے ارد گرد ان کے بڑے بڑے پوسٹر اور فلیکس لگے ہوئے ہیں۔
خواجہ آصف دوپہر 12 بجے اپنے گھر کے باہر لان میں آئے تو اپنے انتظار میں کھڑے حلقے کے لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ خواجہ آصف کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے چہرے پر مخصوص گرم جوشی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
انہوں نے انٹرویو دینے کے لیے بھی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ تاہم پھر کچھ دیر کے بعد انہوں نے اُردو نیوز کو انٹرویو دینے کے لیے ہامی بھر لی۔
ان سے پہلا سوال یہی پوچھا گیا کہ سیالکوٹ میں انتخابی مہم اتنی سست کیوں ہے؟ تو خواجہ آصف نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا ’مہم اس بار بھی ویسی ہی ہے جیسے گزشتہ انتخابات میں تھی تاہم سردی کا موسم ایک وجہ ہے۔ ٹھنڈ اس دفعہ بہت پڑی ہے خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں جس کی وجہ سے انتخابی مہم میں تاخیر ہوئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عام انتخابات میں مہم چلانے کے لیے ڈیڑھ سے دو ماہ کا وقت ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ اتنا وقت نہیں ملا۔ ایک ہفتہ ہوا ہے کہ اس ضمن میں ماحول بننا شروع ہوا ہے۔‘

سیالکوٹ میں خواجہ آصف کی تصاویر اور مسلم لیگ ن کے شیر کے نشان والے بینرز کی بہتات ہے (فوٹو: اردو نیوز)

جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ان کے مدمقابل ایک خاتون امیدوار ہیں اور سوشل میڈیا سے تأثر مل رہا ہے کہ انہیں اس بات کا کچھ فائدہ بھی مل رہا ہے، آپ کی حلقے میں پوزیشن کیسی ہے؟ تو خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال ایسا۔۔ لیکن شروع میں شاید ان کو چھوٹا موٹا سیاسی فائدہ ہو اس بات کا۔ لیکن میرا خیال ہے پچھلے دو ہفتے سے جب سے انتخابی مہم شروع ہوئی ہے تو جو فائدہ ان کو تھا بھی، وہ انہوں نے گنوا دیا ہے۔‘
الیکشن ٹرن آؤٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسے ہی دھوپ پڑی جیسی آج ہے تو پھر ٹرن آؤٹ کافی زیادہ ہو گا لیکن اگر دھند یا سردی ہوئی تو ٹرن آؤٹ متاثر ہو گا۔‘
بلاول بھٹو زرداری کی نواز شریف پر تنقید کے حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’میں اس حوالے سے اندازہ نہیں لگانا چاہتا کہ بلاول یہ سب کیوں کر رہے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ میں اور میری پارٹی ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیں گے۔ لیکن بلاول کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کل کو انہیں دوبارہ ہمارے ساتھ بیٹھنا پڑ سکتا ہے۔‘

ریحانہ امتیاز ڈار کی محتاط مہم

سیالکوٹ چھاؤنی کے پاکستان چوک سے بائیں طرف خواجہ آصف کا گھر ہے تو دائیں طرف چھاؤنی سے باہر اسی سڑک پر چیمبر آف کامرس کی عمارت کے سامنے جناح ہاؤس کے نام سے جانا جانے والا عثمان ڈار کا ڈیرہ اور ساتھ گلی میں رہائش گاہ ہے۔
ریحانہ امتیاز ڈار کے گھر کے باہر کسی قسم کا کوئی بینر یا پوسٹر یا پھر تحریک انصاف کا جھنڈا نظر نہیں آیا۔ ان کے ذاتی ملازمین ان کے بارے میں کچھ بتانے کو تیار نہیں تھے۔
مرکزی دروازے سے اندر آنے کی اجازت ملی تو گیراج میں بجلی کے جنریٹر پر ان کا انتخابی نشان ’جُھولا‘ سرخ اور سبز رنگوں سے مزین پڑا ہوا تھا۔
ان کے سیکریٹری نے بتایا کہ ’ہم ان کا شیڈول نہیں بتا سکتے اور یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ وہ کہاں ہیں۔ ہمارے اوپر بہت سختی ہے۔ وہ روزانہ اپنی مہم کے لیے اچانک نکلتی ہیں۔ ہمارے سکیورٹی کے مسائل ہیں اس لیے انتخابی مہم کے دوران ہی ان سے ملاقات کی جا سکتی ہے، وہ اپنے گھر پر نہیں رہتیں۔‘

ریحانہ امتیاز ڈار کے گھر کے باہر کسی قسم کا کوئی پوسٹر یا پھر تحریک انصاف کا جھنڈا نظر نہیں آیا (فوٹو: اردو نیوز)

لوہے کی دیواروں والے ڈار فیملی کے ڈیرے پر بھی صرف پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا تاہم اس گلی میں ان کے اِکا دُکا پوسٹر نظر آئے۔ البتہ چیمبر آف کامرس کی عمارت کے سامنے سڑک پر ان کے کچھ بینرز اور جُھولے کا نشان بھی نظر آیا، اس کے علاوہ سیالکوٹ شہر میں ان کی کوئی انتخابی نشانی دکھائی نہیں دی۔
ریحانہ امتیاز ڈار نے اپنی انتخابی مہم میں خواجہ آصف کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ ان کہنا ہے کہ ’میں عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں، ہر جبر کا مقابلہ کروں گی  اور خواجہ آصف کو ہرا کر دم لوں گی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ساتھ جو بھی زیادتی ہو رہی ہے، وہ خواجہ آصف کروا رہا ہے۔ میں اسے معاف نہیں کروں گی۔‘
یہی سوال جب خواجہ آصف سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس بابت کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ میرا نام لیتی ہیں، میں نہیں لوں گا۔ سیاست میں اگر نام لینا بھی ہو تو اس کے کئی طور طریقے ہوتے ہیں۔ میں ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا اور نہ دینا چاہوں گا۔‘

سیالکوٹ کا شہری حلقہ کس کے ساتھ؟

سیالکوٹ کا حلقہ این اے 71 جو شہری آبادی پر مشتمل ہے یہ خواجہ آصف کا آبائی حلقہ ہے اور وہ کبھی بھی یہاں سے الیکشن نہیں ہارے تاہم گزشتہ انتخابات میں وہ اپنے مخالف امیدوار عثمان ڈار سے صرف ایک ہزار ووٹوں کی برتری سے جیتے تھے۔
خواجہ آصف نے ایک لاکھ 16 ہزار سے زائد ووٹ لیے جبکہ عثمان ڈار نے ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد ووٹ لیے۔ اس حلقے میں کل ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 88 ہزار سے زائد ہے۔

ریحانہ ڈار کے گھر کے گیراج میں ان کا انتخابی نشان ’جُھولا‘ سرخ اور سبز رنگوں سے مزین پڑا ہوا تھا (فوٹو: اردو نیوز)

شہر کے بازاروں میں لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کی حمایت ریحانہ امتیاز ڈار کے حق میں معلوم ہوتی ہے۔ شہر میں الیکشن کے ماحول کی بجائے چُپ کا ماحول زیادہ ہے۔
لوگ بظاہر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف کا جھنڈا شہر کی کسی گلی کسی محلے اور کسی گھر میں دکھائی نہیں دیا۔ شہر کی سٹریٹ لائٹس کے کھمبوں پر مسلم لیگ ن کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے حامیوں میں غصہ دکھائی دیتا ہے تو لیگی حامی بھی کم بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم خواجہ آصف بھی کافی حد تک متفکر نظر آتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ریحانہ امتیاز کی مقبولیت کو کسی حد تک تسلیم بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا اس بار وہ اپنی آبائی سیٹ بچا پاتے ہیں یا نہیں۔

شیئر: