Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال کی سردی میں سیاسی ماحول گرم، کس کا پلڑا بھاری؟ 

طلحہ محمود ایک ویڈیو میں لوگوں کو کھانا کھلا کر بہتر نتائج دینے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں (فائل فوٹو: سکرین گریب) 
صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع چترال قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ اپر اور لوئر چترال میں قومی اسمبلی کی ایک نشست جبکہ صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں پی کے 1 اور پی کے 2 ہیں۔ 
حلقے کی آبادی کتنی ہے؟
چترال کی مجموعی آبادی 515935 ہے۔چترال کو تحریک انصاف کی حکومت میں دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا جو 4 تحصیلوں پر مشتمل ہے اور ان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 313550 ہے۔
چترال میں مشہور تفریحی مقامات کون سے ہیں؟ 
اپر چترال تریچھ میر چوٹی کے دامن میں واقع ہے جو برف پوش پہاڑوں، آبشاروں، جھیلوں اور گھنے جنگلات کا مسکن ہے۔ 
اس ضلع میں شندور کا بلند ترین پولو گراؤنڈ بھی موجود ہے جہاں ہر سال پولو کے میچ دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ 
لوئر چترال بھی قدرتی حسن سے مالامال ہے۔ اس ضلع میں کیلاش قبیلے کے لوگ بھی آباد ہیں جن کی زیادہ آبادی تین وادیوں میں بستی ہے اور یہاں ہر سال 3 فیسٹیول بھی منقعد کیے جاتے ہیں۔ یہ علاقہ چند اہم ترین ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔
چترال کے حلقے کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ 
چترال کے حلقہ این اے 1 جو پہلے این اے 24 اور این اے 32 ہوا کرتا تھا، سے مختلف ادوار میں مختلف جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔
سنہ 1988 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو اس حلقے سے کامیاب ہوئیں، تاہم 1990، 1993 اور 1997 کے انتخابات میں یہاں سے آزاد امیدوار فاتح قرار پائے۔
سنہ 2002 کے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے امیدوار مولانا عبدالاکبر چترالی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
سنہ 2008 کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے شہزادہ محی الدین جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں ان کے بیٹے شہزادہ افتخارالدین پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے ٹکٹ پر جیت گئے۔
سنہ 2018 کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے اتحاد سے مولانا عبدالاکبر چترالی ایک بار پھر قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

چترال کے حلقہ این اے 1 سے 2002 اور 2018 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے عبدالاکبر چترالی کامیاب ہوئے (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

سنہ 2024 کے عام انتخابات میں کون سے امیدوار میدان میں ہیں؟
این اے 1 چترال کی قومی نشست کے لیے 10 امیدوار میدان میں اترے ہیں جن میں دو خواتین بھی الیکشن لڑ رہی ہیں۔ خدیجہ بی بی کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے ہے جبکہ سیدہ میمونہ شاہ آزاد حیثیت سے کھڑی ہیں۔
این اے 1 کے دیگر امیدواروں میں جے یو آئی کے طلحہ محمود، پاکستان تحریک انصاف کے نامزد کردہ عبداللطیف، جماعت اسلامی کے سابق ایم این اے عبدالاکبر چترالی، مسلم لیگ ن سے سابق ایم این اے افتخارالدین، پیپلزپارٹی کے فضل ربی سمیت دو آزاد امیدوار مختار نبی اور اسد الرحمان شامل ہیں۔
این اے 1 کے امیدواروں میں سابق وفاقی وزیر طلحہ محمود سرِفہرست ہیں جن کی انتخابی مہم کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ تنازعات کا شکار بھی ہو گئی ہے۔ 
طلحہ محمود کا تعلق ہزارہ سے ہے مگر وہ پہلی بار چترال کی نشست سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ ان پر مخالفین نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دوران لوگوں میں پیسے اور راشن تقسیم کررہے ہیں۔
 یہ الزام کسی حد تک درست ثابت ہوا ہے جب ان کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں وہ لوگوں کو کھانا کھلا کر بہتر نتائج دینے کی تلقین کر رہے ہیں۔ 
طلحہ محمود کو الیکشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفس کی جانب سے نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔

این اے 1 چترال میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار عبداللطیف کی جانب سے بھی سخت مقابلے کی توقع ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 طلحہ محمود نے انتخابی مہم میں چترال کی محرومیاں ختم کرنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ آپ نے اگر مجھ پر اعتماد کرکے کامیاب کیا تو وہ یہاں ترقیاتی کام کروائیں گے جن کے لیے حکومت کے علاوہ ان کی فاونڈیشن بھی تعاون کرے گی۔
جے یو آئی کے رہنما نے کہا کہ ’میں چترال کی خدمت کے لیے آیا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں کے لوگ مجھے مایوس نہیں کریں گے۔‘ 
دوسری جانب جماعت اسلامی کے سابق ایم این اے مولانا عبدالاکبر بھی مضبوط امیدوار ہیں جو دو بار اس حلقے سے کامیاب ہوچکے ہیں۔ 
اسی طرح سابق ایم این اے افتخارالدین اور تحریک انصاف کے نامزد امیدوار عبداللطیف سے بھی کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
اپر چترال کی صوبائی نشست پر پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی (پارلیمنٹیرینز) کا مقابلہ متوقع
اپر چترال پی کے 1 کے لیے دو خواتین سمیت 15 امیدوار میدان میں اترے ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار ثریا بی بی اور پی ٹی آئی (پارلیمنٹیرینز) کی جانب سے حاجی غلام محمد امیدوار ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ان دو امیدواروں میں مقابلہ سخت ہوگا، تاہم جے یو آئی کے شکیل خان اور آزاد امیدوار مختار نبی بھی مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں۔

سنہ 1988 میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو این اے 1 چترال سے کامیاب ہوئیں (فائل فوٹو: فلِکر)

لوئر چترال پی کے 2 کی بات کی جائے تو یہاں 8 امیدواروں میں سابق صوبائی وزیر سلیم خان مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
 ان کا مقابلہ دو امیدواروں سے متوقع ہے ایک پی ٹی آئی کے رہنما فتح الملک علی ناصر اور دوسرے جماعت اسلامی کے مغفرت شاہ ہیں۔ 
چترال کی سیاسی حرکیات قومی سیاست سے الگ ہیں
چترال کے سینیئر صحافی ذوالفقار علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’چترال کی سیاست ملک کے دیگر علاقوں سے الگ ہے۔اس کی بڑی وجہ یہاں قوم پرستی کی لہر کا موجود ہونا ہے۔‘
’چترال میں سیاسی وابستگی کے ساتھ شخصیت اور قوم بہت معنی رکھتی ہے، اگر برادری ساتھ نہ دے تو بڑی سے بڑی جماعت کے امیدوار انتخابات میں ڈھیر ہوجاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق چترال کے سرد موسم میں تحریک انصاف کی ہوا بھی چل رہی ہے جس کا امیدوار کو بھرپور فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں چترال کی 4 تحصیلوں میں سے 3 میں پی ٹی آئی کے امیدوار فاتح رہے تھے۔ 
کیا سردی کی شدت سے ٹرن آوٹ متاثر ہوسکتا ہے؟
سینیئر صحافی ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ ’چترال میں موسم سرما کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد روزگار کے لیے دیگر شہروں کا رُخ کرتی ہے اور اس وقت بھی ہزاروں نوجوان پشاور، اسلام آباد اور کراچی میں موجود ہیں۔ ووٹنگ کے دن یہ لوگ اگر چترال نہ آئے تو اس کا ٹرن آوٹ پر اثر پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’چترال میں بارشیں اور برف باری نہیں ہوئی، تاہم اگر فروری میں موسم خراب ہوا تو اس سے بھی ٹرن آؤٹ متاثر ہو سکتا ہے۔‘

شیئر: