Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال کی خاتون امیدوار جو سعودی عرب کی یونیورسٹی میں لیکچرر رہیں

سیدہ میمونہ شاہ کا تعلق چترال کے پسماندہ ترین علاقے اویر سے ہے (فوٹو بشکریہ: سیدہ میمونہ شاہ)
عام انتخابات 2024 کی گہما گہمی عروج پر ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
ماضی میں بہت سی خواتین نے میڈیا یا قانون کے شعبوں سے سیاست کا رُخ کیا اور کامیابی حاصل کی مگر ایسی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو درس و تدریس کے شعبہ سے سیاست میں آئی ہوں۔ 
چترال کی سیدہ میمونہ شاہ نے البتہ یہ روایت توڑتے ہوئے  قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 1 کی جنرل سیٹ سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔
سیدہ میمونہ شاہ کا تعلق چترال کے پسماندہ ترین علاقے اویر سے ہے جہاں کے عوام کو تعلیم، صحت، سڑکوں اور دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
خاتون امیدوار کی تعلیمی قابلیت
سیدہ میمونہ کا کسی سیاسی خاندان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کے خاندان کے زیادہ تر ارکان درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں۔
سیدہ میمونہ شاہ بھی شعبۂ تدریس سے ہی منسلک ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اپنے تعلیمی پس منظر کے بارے میں بتایا، ’پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے انگلش اور ایم ایس سی سائیکالوجی کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد سپیچ اینڈ لینگویج تھراپی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ حاصل کیا جبکہ ان دنوں رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ایم ایس کررہی ہوں۔‘
انہوں نے کہا، ’وہ ان دنوں اسلام آباد کے ایک بحالی مرکز میں سائیکالوجسٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔‘
سعودی عرب کی یونیورسٹی میں لیکچرر بھی رہی
سیدہ میمونہ شاہ کے مطابق وہ سعودی عرب کی قصیم یونیورسٹی میں سنہ 2012 سے لیکر سنہ 2021 تک لیکچرر اور اکیڈیمک ایڈوائزر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ رہی ہیں اور یونیورسٹی میں لسانیات کا مضمون بھی پڑھاتی رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’انہوں نے سعودی عرب کے تعلیمی نظام میں نہ صرف پڑھایا بلکہ وہاں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا جو یقیناً ایک اچھا تجربہ رہا ہے۔‘
سیاست میں آنے کا کیا مقصد ہے؟
چترال کے حلقہ این اے 1 سے آزاد امیدوار میمونہ شاہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ’چترال سے غربت، بے روز گاری کو ختم کرکے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا چاہتی ہوں۔ اس حلقے میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہت سے مسائل موجود ہیں جن کے حل پر خاص ترجیح دوں گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چترال کا انفراسٹرکچر شدید متاثر ہے جو تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے۔‘
سیدہ میمونہ شاہ نے کہا کہ ’وہ اپنی تمام صلاحیتوں اور تجربات کو بروئے کار لاکر چترال میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہیں مگر اس کے لئے انہیں پارلیمنٹ میں جانا ہوگا تاکہ وہ اپنے حلقے کے لیے آواز اٹھاسکیں۔‘

سیدہ میمونہ کا کسی سیاسی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے

عوامی پذیرائی مل رہی ہے
میمونہ شاہ کے مطابق انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد مختلف علاقوں کا رُخ کیا جہاں انہیں مثبت عوامی ردعمل دیکھنے کو ملا اور عام لوگوں کے ساتھ سیاسی کارکنوں نے بھی حوصلہ افزائی کی۔‘
انہوں نے کہا، ’مقامی لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ پڑھی لکھی خواتین کو سیاست میں آنا چاہیے لہٰذا مجھے یقین ہے کہ لوگ مجھے سپورٹ کریں گے۔‘
خاتون امیدوار نے مزید کہا کہ ’خاتون ہونے کے ناتے ان کے لئے دشوار گزار راستوں اور موسم کی شدت کی وجہ سے کچھ مشکلات ضرور ہوں گی مگر میں 10 جنوری کے بعد باقاعدہ انتخابی مہم چلانے کے لیے پرعزم ہوں۔‘
واضح رہے کہ حلقہ این اے 1 چترال کی قومی نشست کے لیے 23 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں جن میں 3 خواتین بھی شامل ہیں ۔
 یاد رہے کہ چترال کے حلقہ این اے 1 سے اب تک 3 خواتین امیدوار قسمت آزمائی کر چکی ہیں جن میں دو خواتین امیدواروں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا جن میں بیگم نصرت بھٹو نے 1988 کے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ٹھہریں جب کہ دوسری بار 1988 کے انتخابات میں ہی خاتون امیدوار بیگم شیر علی نے حصہ لیا۔ 1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار زوجہ محمد سلیمان نے الیکشن میں حصہ لیا اور وہ 15 ہزار ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہیں۔

شیئر: