ان دنوں تھرپارکے علاقے چھاچھرو کا ذکر زبان زد عام ہے جس کی بنیادی وجہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اس علاقے سے الیکشن لڑنا ہے۔ سرحدی علاقہ تھرپارکر اپنے دامن میں جہاں کئی داستانیں سمیٹے ہوئے ہے وہیں یہاں بسنے والوں کی درد بھری کہانیاں بھی آئے روز منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔
سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں اکثریت مسلمانوں کی ضرور ہے لیکن کاروباری اور مالی طور پر اب بھی اس علاقے میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مضبوط ہیں۔
ان علاقوں میں ڈھٹکی، گجراتی، اردو اور سندھی زبان بولی جاتی ہے۔
تھرپارکر کے تعلقہ چھاچھرو سے اس بار پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حلقہ این اے 214 سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
چھاچھرو کا قدرتی حسن سے مالا مال علاقہ
چھاچھرو اپنی صحرائی وستعوں میں قدرتی حسن سے مالا مال علاقہ ہے۔ اس علاقے کے بارے میں مشہور ہے کہ برسات کے موسم میں اس علاقے کا رہنا والا یہاں آئے بغیر رہ نہیں سکتا۔
اس علاقے میں مور اپنے خوبصورت پنکھ پھیلائے محوِ رقص ہوتے ہیں۔ تلور، تیتر اور اچھلتے کودتے ہرن اس علاقے کی شان میں چار چاند لگاتے ہیں۔
یہ صحرائی علاقہ ہے لیکن یہاں کی زمین زرخیز ہے، بارش کی بوند پڑتے ہی زمین کا سینہ چیر کر بیل بوٹے اُگ آتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ صحرا ہرا ہو جاتا ہے اور پہاڑ دلکش منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔
یہاں آنے والے صحرا کے اس حسین منظر میں گُم ہو جاتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں اس علاقے سے پڑوسی ملک انڈیا کا نظارہ بھی خوب ہوتا ہے۔ صحرا میں اندھیرا ہوتے ہی سرحد پار سے روشنیاں پڑوسی ملک میں آباد دیہات کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔
ان حسین مناظر کے حامل اس علاقے کے بسنے والے آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ یہاں آباد چھوٹے بڑے شہر اور دیہات کے رہنے والے پینے کے پانی کے حصول کے لیے بھی کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ تھر کا وہ علاقہ بھی ہے جہاں بے روزگاری، بھوک اور صحت کے بہتر انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز بچوں کی اموات کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔
پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدوار آمنے سامنے
چھاچھرو کا حلقہ این اے 214 پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کے لیے اہم ہے۔ اسی لیے اس علاقے سے دونوں جماعتوں کی جانب سے مضبوط امیدوار میدان میں اُتارے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی اس بار آزاد امیدوار کی حیثیت میں میدان میں اترے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا انتخابی نشان اب بلّے کے بجائے مور ہے۔
پرانی حلقہ بندیوں کے حساب سے یہ حلقہ این اے 221 تھا، جبکہ نئی حلقہ بندی کے مطابق یہ حلقہ این اے 214 ہے۔
اس حلقے کی مجموعی آبادی 8 لاکھ 97 ہزار 87 افراد پر مشتمل ہے۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 42 ہزار 458 ہے جن میں مرد ووٹرز ایک لاکھ 35 ہزار 228 ہیں اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 7 ہزار 230 ہیں۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں شاہ محمود قریشی نے تھرپارکر ون کے حلقہ این اے 221 جو اب این اے 214 ہے، سے 72 ہزار 884 ووٹ حاصل کیے تھے اور وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار پیر محمد شاہ جیلانی سے الیکشن ہارے تھے۔ اسی طرح سال 2021 کے ضمنی انتخاب میں بھی شاہ محمود قریشی کو اس حلقے سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
شاہ محمود قریشی کی مہم کون چلا رہا ہے؟
اس علاقے میں غوثیہ جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں اور شاہ محمود قریشی کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ان کی انتخابی مہم بھی غوثیہ جماعت کے معززین ہی چلا رہے ہیں۔
غوثیہ جماعت سے تعلق رکھنے والے سکندر حیات نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’حلقہ این اے 214 میں شاہ محمود قریشی کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلا رہے ہیں۔ اس علاقے میں بسنے والی بھیل برادری نے بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یونین کونسل ویرا واہ اور یونین کونسل ڈابھو میں الیکشن مہم کے سلسلے میں مختلف مقامات کا دورہ کیا ہے۔
سکندر حیات نے کہا کہ ’گوٹھ کیریو کی دل برادری، گوٹھ جانی کی ڈہانی ساند برادری، گوٹھ رڑیاسر کی راھموں اور ساند برادری، گریانو تھیبو برادری، گوٹھ انامڑو کی تھیبو برادری سمیت مختلف علاقوں میں گھر گھر جا کر مخدوم شاہ محمود قریشی کا پیغام پہچایا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ تمام برادریوں نے آٹھ فروری کو مور کے نشان پر مہر لگا کر شاہ محمود قریشی کو کامیاب کروانے کا اعلان کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کا امیدوار کون؟
تھرپارکر ون چھاچھرو کے حلقہ این اے 214 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے پیر امیر علی شاہ جیلانی کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
پیر امیر علی شاہ بھی اس حلقے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اور 2021 کے ضمنی انتخاب میں شاہ محمود قریشی کو شکست دے چکے ہیں۔ پیر امیر علی شاہ نے ضمنی انتخاب میں ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پیر امیر علی شاہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’تھرپارکر میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے مضبوط جماعت ہے۔ یہاں بسنے والی تمام قومیتیں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔‘