Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برسلز: یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر کے سامنے کسانوں کا احتجاج

یورپی کمیشن کے نائب صدر نے کہا کسانوں کے تحفظات سننے کی کوشش کریں گے۔ فوٹو اے پی
سینکڑوں ناراض کسان ہیوی ڈیوٹی ٹریکٹروں سمیت احتجاجی طور پر برسلز میں یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر کے سامنے جمع ہو گئے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعرات کو یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں تیل  کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی  اور بیوروکریسی کے بارے میں شکایات سنانا چاہتے تھے۔
یورپی یونین کے اردگرد سیکڑوں ٹریکٹر پہنچ جانے کے بعد پولیس نے کمیشن اور کونسل کی عمارتوں کو حفاظتی حصار میں لے لیا۔
ٹریکٹروں پر سوار سیکڑوں کسان سٹارٹ انجنوں کے شور، کریکر کے پٹاخوں اور تیز ہارن کی آواز کے ساتھ بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں داخل ہوئے۔
جنوبی بیلجیئم کے ایک کسان جین فرانکوئس ریکر نے کہا کہ ہم نے یورپی یونین کے صدر دفتر کے قریب سرد رات کو بہادری سے گزارا اور ہمیں مظاہرے میں 1000 سے 1400 ٹریکٹروں کے آنے کی توقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم بہت سارے لوگ ہوں گے اور ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے  ہیں کہ ہمارا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں۔
مظاہرین میں زیادہ تر نوجوان کسان توانائی کی بلند قیمتوں کی وجہ سے مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔

بکتر بند گاڑیاں کئی علاقوں میں داخلی راستوں کو روکے ہوئے تھیں۔ فوٹو اے پی

کسانوں کی جانب سے اسی طرح کے مظاہرے یورپی یونین کے دیگر ممالک میں گذشتہ ہفتے کے بیشتر دنوں میں ہوتے رہے ہیں۔
کسانوں نے بدھ کے روز بیلجیئم، فرانس اور اٹلی میں بھی کئی شاہراہیں ٹریفک کے لیے بند کر دی تھیں جو بندرگاہوں یا گوداموں سے تجارت میں خلل کی کوشش تھی۔
گذشتہ روز بدھ کو پیرس پولیس سربراہ نے کہا تھا کہ 91 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جنہوں نے یورپ کی سب سے بڑی فوڈ مارکیٹ میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی۔

کسان اصرار کر رہے تھے کہ ان کا احتجاج پرامن ہو گا۔ فوٹو اے پی

بکتر بند گاڑیاں پیرس کے جنوب میں کئی علاقوں میں داخلی راستوں کو روکے ہوئے تھیں۔
جمعرات کو برسلز آنے والے کسان اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ان کا احتجاج پرامن ہو گا اور سیکیورٹی فورسز اب تک مظاہرین کو پرامن رکھنے کی کوشش میں کامیاب ہیں۔
اس موقع پر یورپی کمیشن کے نائب صدر ماروس سیفکووچ نے کہا ہے کہ مظاہرین کو یقین دہانی کراتا ہوں ہم کسانوں کے تحفظات سننے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور ان کے دو اہم مطالبات حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔

شیئر: