8 فروری کو ہونے والا چناؤ اب محض چند روز کی دوری پر ہے، نتائج کیا ہوں گے؟ شہر اقتدار میں اس بابت بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں، ایک بولی البتہ کامن ہے اور وہ ہے کہ صاحب مقبولیت اپنی جگہ لیکن نازک دور سے گزرتا ملک اس بات کا متقاضی ہے کہ قبولیت کو اہمیت دی جائے۔ ٹرن آؤٹ البتہ توقعات سے زیادہ ہوا تو گڑ بڑ ہونے کا شدید خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ 2018 اور 2013 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ بالترتیب 51 اور 53 فیصد رہا تھا۔ 2008 میں 44 اور 2002 میں محض 41 فیصد رہا۔ 1997 میں جب میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت ملی تو ٹرن آؤٹ اس قدر اکثریت کے باوجود فقط 36 فیصد رہا تھا۔ کچھ دانشور اب کے بار بھی سادہ اکثریت کی صورت میں ٹرن آوٹ کچھ ایسا ہی دیکھ رہے ہیں۔
ایک اور اہم خدشہ امن و امان کی صورتحال ہے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بالخصوص آئے دن دہشت گردی کے واقعات انتہائی تشویش ناک صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کا چند روز پہلے ہوا اجلاس بھی اسی فکر میں تھا۔
مزید پڑھیں
-
پھر وہی سوال کہ عمران خان کا کیا بنے گا: اجمل جامی کا کالمNode ID: 817116
-
عمران یا نواز، گیم کہاں تک چلے گی؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 818881
-
مسلم لیگ ن کی اصل کنفیوژن کیا ہے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 832166