آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے ملک بھر میں انتخابی مہم ختم ہوگئی ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ’منگل اور بدھ کی درمیانی رات 12 بجے کے بعد کوئی بھی شخص کسی بھی جلسے، جلوس، کارنر میٹنگ یا اس نوعیت کی سیاسی سرگرمی کا نہ تو انعقاد کرے گا اور نہ ہی اس میں شرکت کرے گا۔‘
حکام الیکشن کمیشن کے مطابق ’کوئی بھی شخص جو قانون کی مذکورہ بالا شق کی خلاف ورزی کرے گا اُس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
مزید پڑھیں
-
’زندگی داؤ پر لگی ہے‘، بلوچستان میں انتخابی مہم کیوں نشانے پر؟Node ID: 833881
’مقررہ وقت کے بعد الیکشن مہم، اشتہارات و دیگر تحریری مواد کی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر کی پابندی ہو گی جس سے کسی خاص سیاسی پارٹی یا امیدوار کی حمایت یا مخالفت کا شبہ ہو۔‘
الیکشن کمیشن کا مزید کہا ہے کہ ’اس کے علاوہ انتخابی عمل کے انعقاد تک میڈیا پر ہر قسم کے پول یا سروے پر بھی پابندی ہوگی۔‘
میڈیا پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد پولنگ سٹیشن کے نتائج نشر کر سکتا ہے جس میں یہ واضح طور پر بتایا جائے گا کہ یہ رزلٹ غیر حتمی و غیر سرکاری ہے۔
ریٹرننگ افسران پولنگ سٹیشنوں کا پروگریسیو اور مکمل غیر حتمی نتائج جاری کریں گے۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ پر سختی سے عمل درآمد کرے گا اور خلاف ورزی پر پیمرا اور پی ٹی اے کو قانونی کارروائی کی ہدایات کی گئی ہیں۔
انتخابی مہم کے سلسلے میں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے آخری روز جلسوں سے خطاب کیا۔
مسلم لیگ ن نے قصور میں کھڈیاں کے مقام پر عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس جلسے سے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز نے خطاب کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے آبائی حلقے لاڑکانہ، آصف علی زرداری نے لاہور کے حلقہ این اے 127 جبکہ آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے والد کے انتخابی حلقے نواب شاہ میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے لوئر دیر جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے آخری جلسے سے خطاب کیا۔

انتخابی مہم کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری نے کراچی، لاہور، راولپنڈی اور حیدرآباد میں جلسوں سے خطاب کیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے ملتان مالاکنڈ، پشاور، سکھر، کوئٹہ، تُربت، تلہ گنگ، گجرات، شہداد کوٹ، چترال اور ملک کے دیگر شہروں میں عوامی اجتماعات منعقد کیے۔
اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ابتدا میں الگ الگ اور بعدازاں ایک ساتھ مختلف شہروں میں جلسوں سے خطاب کیا۔
آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو ملک کے کسی بھی بڑے شہر میں بڑا جلسہ کرنے کی اجازت نہ ملی۔
انتخابی مہم کے آخری ہفتے میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے اپنے اپنے طور پر انتخابی جلسے کیے جن میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔
تحریک انصاف کی جانب سے لیاقت باغ میں جلسہ کرنے کی اجازت بھی مانگی گئی تھی، تاہم انتظامیہ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی۔
انتخابی مہم کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ’پاکستان کو نواز دو‘ کا نعرہ لگایا جبکہ پیپلز پارٹی نے ’چُنو نئی سوچ کو‘ اپنا انتخابی نعرہ قرار دیا۔
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا نعرہ ہے ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ جبکہ جماعت اسلامی نے اپنا مقبول نعرہ ’حل صرف جماعت اسلامی‘ برقرار رکھا۔

قصور میں اپنے آخری انتخابی جلسے سے خطاب میں نواز شریف نے جہاں تحریک انصاف کا نام لیے بغیر اسے تنقید کا نشانہ بنایا وہیں اپنی دور حکومت کے کام بھی گنوائے۔
انہوں شہباز شریف کو تاکید کی کہ مستقبل میں قصور سمیت پورے ملک میں ترقیاتی کام کروائیں، سڑکیں یونیورسٹیاں اور دانش سکول قائم کریں۔
اُدھر لاڑکانہ میں بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی مہم کے آخری خطاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو نشانے پر رکھا اور کہا کہ پُرانے سیاست دانوں کی انا اور ضد کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔‘
’نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو وہ انہی سے لڑ پڑتے ہیں جو اُنہیں اقتدار میں لے کر آتے ہیں۔ اب اگر ایک بار پھر وہ وزیراعظم بنے تو ملک میں دھرنوں کی سیاست شروع ہو جائے گی۔‘
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی ملک کے چاروں صوبوں میں مختلف شہروں میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔
جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خیبر پختوںخوا اور بلوچستان تک محدود رہے، تاہم انہوں نے ملتان اور سکھر میں بھی ایک ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔
