پاکستان میں عام انتخابات کے بعد حکومت بنانے کا مرحلہ بھی پیچیدگیوں کا شکار ہے کسی ایک بھی پارٹی کے پاس سادہ اکثریت نہ ہونے کے سبب جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر ہے۔
وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے بڑے سر جوڑ کے بیٹھے ہیں تاہم ابھی تک شراکت اقتدار کا فارمولہ طے نہیں پا سکا۔ منگل کے روز صورت حال اس وقت گھمبیر ہو گئی جب پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بیان دیا کہ اگر ان کی جماعت وزارت عظمی کے لیے ن لیگ کو ووٹ دے گی تو شرائط اپنی منوائے گی۔
مزید پڑھیں
-
تو اب حل کیا ہے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 838181
اس سے پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان پانچ مرتبہ بیٹھک ہوچکی ہے۔ پیر کی شام جب کمیٹیوں کا اجلاس اختتام پذیر ہوا تو یہ مقامی میڈیا میں خبریں نشر کی گئیں کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے۔ اور رات دس بجے اجلاس دوبارہ ہو گا۔ تاہم اس وقت سے لے کر اب تک مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس اور رابطے دوبارہ بحال نہیں ہو سکے۔
سپریم کورٹ کے باہر بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کے بعد البتہ شہباز شریف لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گئے۔ جس سے یہی تاثر لیا گیا کہ وہ معاملات کی بحالی کے لئے ابھی اعلی قیادت آپس میں بیٹھے گی تاہم ابھی تک صورتحال جوں کی توں ہے۔
ڈیڈ لاک ہے کیا؟
مسلم لیگ ن کی جانب سے تو اس حوالے سے کوئی بھی رہنما کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ البتہ پیپلزپارٹی کے رہنما دبے لفظوں میں اظہار کر رہے ہیں جس سے اس مسئلے کی کچھ نہ کچھ شکل آشکار ہو رہی ہے۔
قمرالزمان کائرہ نے بیان دیا کہ پیپلزپارٹی اپنے اس اصولی موقف پر قائم ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی۔ ان کے اس بیان سے واضع ہوتا ہے کہ ڈیڈ لاک میں ایک بات مسلم لیگ ن کی جانب سے اس بات پر اصرار کیا جانا بھی ہے کہ پیپلزپارٹی بھی حکومت کا باضابطہ حصہ بنے۔
تاہم بلاول بھٹو نے اپنے بیان میں جب ان دیکھی شرائط کا ذکر کیا جو وہ مسلم لیگ ن سے منوانا چاہتے ہیں تو ایسے معلوم ہوا کہ پیچیدگی اس سے زیادہ ہے جو سمجھی جا رہی ہے۔
