Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں نئی حکومت اور اپوزیشن دونوں سے کوئی امید نہیں: اختر مینگل

سردار اختر مینگل این اے 261 سے کامیاب ہو کر ایوان میں پہنچے ہیں (فوٹو: اے پی پی)
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتیں عموماً انتخابات کے بعد حکومتی اتحاد کا حصہ بنتی ہیں اور حکومتیں ان کے مطالبات ماننے کی ہامی بھی بھرتی ہیں۔
کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد وہ حکومت میں رہتے ہوئے یا اپوزیشن بینچوں سے حکومت کی ’وعدہ خلافیوں‘ پر صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی یا پختونخوا میپ سب کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔
اگرچہ اس بار بھی ان جماعتوں کو زیادہ نشستیں نہیں ملیں اور قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر محدود کر دیا گیا ہے لیکن بلوچستان عوامی پارٹی پہلے سے ہی حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔
ایسے میں بلوچستان سے واحد توانا آواز سردار اختر مینگل کی ہے جو این اے 261 سے کامیاب ہو کر ایوان میں پہنچے ہیں۔
سردار اختر مینگل 2018 میں قومی اسمبلی کے رکن تھے اور ابتدا میں ایک معاہدے کے تحت وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے لیکن بعد میں الگ ہو گئے۔
تحریک عدم اعتماد میں بھی انھوں نے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا ساتھ دیا۔
اب انتخابات کے بعد وہ مسلسل مبینہ دھاندلی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور دونوں جماعتوں نے دھاندلی سے متعلق یکساں موقف اپنایا ہے۔
اس کے باوجود سردار اختر مینگل صرف حکمراں اتحاد ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف سے بھی خائف ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن بینچوں کے علاوہ اگر تیسرا آپشن موجود ہوتا تو وہ اس پر بیٹھنا پسند کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں نئی حکومت اور اپوزیشن دونوں سے کوئی امید نہیں ہے۔‘
پارلیمنٹ ہاؤس میں بحیثیت رکن قومی اسمبلی اپنی رجسٹریشن کرانے کے بعد اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’ہم یہ بارھواں الیکشن لڑ رہے ہیں اور الیکشن میں ہی کچھ نہ کچھ نیا ہوتا ہے لیکن یہ سب سے انوکھا الیکشن ہے جہاں محنت کسی اور نے کی اور پھل کوئی اور لے گیا۔‘

سردار اختر مینگل 2018 میں ایک معاہدے کے تحت تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے (فوٹو: اے پی پی)

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’جو حکومت بنانے جا رہے ہیں کہ وہ بھی ہمارے دوست رہے ہیں اور جو اپوزیشن میں ہیں وہ بھی ہمارے دوست رہے ہیں۔ اس لیے ان دونوں کے ساتھ بیٹھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں کوئی تیسری جگہ ہوتی تو میں وہاں بیٹھنا پسند کرتا لیکن تیسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ حکومت میں جائیں گے تو انھوں نے واضح کیا کہ ’حکومت میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘
1996 میں بی این پی کا قیام عامل میں لایا گیا اور محض ایک سال بعد بی بی این پی مینگل 1997 کے عام انتخابات میں نو صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
پارٹی سربراہ اختر مینگل جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔
لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے اور اختر مینگل کو بلوچستان میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات کرنے سے متعلق پارٹی سے مشاورت نہ کرنے کے الزامات کے باعث استعفیٰ دینا پڑا۔
جس کے بعد نواب اسراراللہ زہری بی این پی کے مقابلے میں بی این پی عوامی بنا لی اور یوں اختر مینگل کی جماعت بی این پی مینگل کہلانے لگی۔
بی این پی مینگل نے 2002 اور 2008 کے عام انتخابات ’فوجی ڈکٹیٹر‘ پرویز مشرف کی سربراہی میں کرانے کی وجہ سے ان میں حصہ نہیں لیا۔
اس کے باوجود ان کی پارٹی کے تین رہنما قومی و صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پارٹی کا ایک سینیٹر بھی منتخب ہوا جنہوں نے 2006 میں اپنی نشستوں سے اس وقت استعفیٰ دے دیا، جب بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔
2006 میں اختر مینگل کے ذاتی سیکیورٹی گارڈ نے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر خفیہ ادارے کے اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد اختر مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔
اختر مینگل نے دعویٰ کیا کہ اہلکار کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ ان کے بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پی این پی مینگل نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور کراچی جیل سے رہائی کے بعد اختر مینگل نے چار سال تک خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی اور 2013 میں وطن واپس لوٹ کر سیاست میں متحرک ہوئے۔

شیئر: