بلوچستان سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتیں عموماً انتخابات کے بعد حکومتی اتحاد کا حصہ بنتی ہیں اور حکومتیں ان کے مطالبات ماننے کی ہامی بھی بھرتی ہیں۔
کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد وہ حکومت میں رہتے ہوئے یا اپوزیشن بینچوں سے حکومت کی ’وعدہ خلافیوں‘ پر صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
بی این پی مینگل پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہNode ID: 485941
-
بلوچستان سے کون کونسے اہم امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں؟Node ID: 822281
-
بلوچستان میں 8 سابق وزرائے اعلٰی کی دوبارہ عہدہ سنبھالنے کی دوڑNode ID: 832856
بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی یا پختونخوا میپ سب کی کہانی تقریباً ایک جیسی ہی ہے۔
اگرچہ اس بار بھی ان جماعتوں کو زیادہ نشستیں نہیں ملیں اور قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر محدود کر دیا گیا ہے لیکن بلوچستان عوامی پارٹی پہلے سے ہی حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔
ایسے میں بلوچستان سے واحد توانا آواز سردار اختر مینگل کی ہے جو این اے 261 سے کامیاب ہو کر ایوان میں پہنچے ہیں۔
سردار اختر مینگل 2018 میں قومی اسمبلی کے رکن تھے اور ابتدا میں ایک معاہدے کے تحت وہ تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے لیکن بعد میں الگ ہو گئے۔
تحریک عدم اعتماد میں بھی انھوں نے پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا ساتھ دیا۔
اب انتخابات کے بعد وہ مسلسل مبینہ دھاندلی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں تو تحریک انصاف کی قیادت نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور دونوں جماعتوں نے دھاندلی سے متعلق یکساں موقف اپنایا ہے۔
اس کے باوجود سردار اختر مینگل صرف حکمراں اتحاد ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف سے بھی خائف ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن بینچوں کے علاوہ اگر تیسرا آپشن موجود ہوتا تو وہ اس پر بیٹھنا پسند کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں نئی حکومت اور اپوزیشن دونوں سے کوئی امید نہیں ہے۔‘
پارلیمنٹ ہاؤس میں بحیثیت رکن قومی اسمبلی اپنی رجسٹریشن کرانے کے بعد اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ ’ہم یہ بارھواں الیکشن لڑ رہے ہیں اور الیکشن میں ہی کچھ نہ کچھ نیا ہوتا ہے لیکن یہ سب سے انوکھا الیکشن ہے جہاں محنت کسی اور نے کی اور پھل کوئی اور لے گیا۔‘
