Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی وزیراعظم کا انتخاب اتوار کو کرے گی

پاکستان کی سولہویں قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں نو منتخب ارکان قومی اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے جبکہ وزیراعظم کا انتخاب اتوار کو کیا جائے گا۔
جمعرات کو حلف برداری سے پہلے  ایوان میں ن لیگ اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے نو منتخب ارکان سے حلف لیا۔ اجلاس شروع ہونے پر سنی اتحاد کونسل کے اراکین قومی اسمبلی احتجاج کرنے کے لیے سپیکر کے ڈائس کے سامنے آ گئے تاہم حلف برداری شروع ہونے پر اپنی اپنی نشستوں پر واپس چلے گئے۔
حلف برداری کے بعد تمام ارکان نے باری باری سپیکر کے ڈائس کے ساتھ رکھے گئے رجسٹر پر دستخط کیے۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ آج کے اجلاس میں شرکت کر کے حلف اٹھائیں گے جبکہ سابق حکومتی اتحادی جمعیت علما اسلام بھی اجلاس میں شرکت کر کے حلف لیا۔ 
کامیاب آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل نامی مذہبی جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے لیکن تا حال انہیں مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی گئی ہیں۔ 
اسی بنیاد پر وفاقی حکومت اور صدر مملکت کے درمیان اجلاس بلانے کے معاملے پر تنازع بھی ہوا۔
صدر مملکت نے وزارت پارلیمانی امور کی سمری یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ ابھی ایوان مکمل نہیں ہے اس لیے اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ تاہم وفاقی حکومت نے متبادل انتظام کے تحت وزیراعظم کی منظوری سے اجلاس بلانے کا اختیار سپیکر قومی اسمبلی کو دیا۔ جنہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کی صبح 10 بجے طلب کیا۔ 
تاہم 28 فروری کی رات گئے صدر مملکت نے بھی تحفظات کے ساتھ اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط کر دیے۔ یہ سمری انہیں نگراں وزیراعظم نے اس جواب میں بھیجی تھی جس کے تحت انہوں نے اجلاس بلانے سے انکار کیا تھا۔ 
آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات ہوئے جس میں تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا تاہم تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات قانون کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی اور ان کے پاس انتخابی نشان موجود نہیں تھا۔ 

شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کے لیے 169 ووٹ درکار ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

تاہم ان انتخابات کے نتیجے میں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جنھیں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت حاصل تھی۔ تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے تاہم الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
تحریک انصاف جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کا موقف ہے کہ انتخابات میں منظم دھاندلی کی گئی ہے اور فارم 45 پر جیتنے والے ارکان کی جیت کو شکست میں بدل دیا گیا ہے اور انہیں فارم 47 کے ذریعے کامیاب امیدوار ظاہر کیا گیا ہے۔ 
اس سے متعلق الیکشن کمیشن ہائی کورٹس اور دیگر فورمز پر متعدد شکایات بھی درج ہو چکی ہیں اور ان معاملات کی سماعت بھی جاری ہے۔ 
خود سابق وزیراعظم نواز شریف بھی مانسہرہ کی نشست پر ہارنے کے بعد الیکشن کمیشن آئے اور متعلقہ آر او پر دھاندھلی کا الزام عائد کیا۔ تاہم الیکشن کمیشن نے ان کی درخواست خارج کرتے ہوئے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کو کامیاب قرار دیا ہے۔ 
قومی اسمبلی میں کس کے پاس کتنی نشستیں ہیں؟ 
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی  نشستوں کے مطابق اب تک کی پارٹی پوزیشن جاری کر دی ہے جس کے تحت مسلم لیگ ن 108 ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے۔  سنی اتحاد کونسل میں 81 ازاد ارکان شامل ہوئے۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا معاملہ ابھی زیر التوا ہے۔ 8 آزاد ارکان کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 68 ہو گئی ہے۔ 
الیکشن کمیشن کی جاری کردہ تفصیل کے مطابق قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں پر پارٹی پوزیشن کچھ یوں ہے کہ مسلم لیگ ن 75 جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئی، 9 آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد مسلم لیگ ن کے ارکان کی جنرل نشستوں کی تعداد 84 ہو گئی۔

 سنی اتحاد کونسل نے عمر ایوب کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

مسلم لیگ ن کو اقلیتوں کی 4 اور خواتین کی 20 نشستیں ملی ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ ن کی اب تک کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 108 ہو گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے 54 امیدوار جنرل نشست پر کامیاب ہوئے، کسی آزاد امیدوار نے شمولیت اختیار نہیں کی۔ پیپلز پارٹی کو اقلیتوں کی 2 اور خواتین کی 12 نشستیں ملی ہیں اور یوں مجموعی تعداد 68 ہو گئی ہے۔ 
سنی اتحاد کونسل میں 81 آزاد ممبران شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔ 
ایم کیو ایم کے 17 امیدوار کامیاب ہوئے تام کسی نے شمولیت اختیار نہیں کی۔ ایم کیو ایم کو اقلیت کی ایک نشست اور خواتین کی 4 نشستیں ملیں، اس طرح کل ارکان کی تعداد 22 ہو گئی۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے 6 ارکان کامیاب ہوئے۔ کسی نے شمولیت اختیار نہیں کی، 1 خواتین کی نشست ملی مجموعی تعداد 7 ہو گئی ہے۔  
پاکستان مسلم لیگ ق کے 3 ممبران جنرل نشست پر کامیاب ہوئے۔ ایک آزاد امیدوار کی شمولیت کے بعد ارکان کی تعداد 4 ہو گئی۔ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں سے ایک ملنے کے بعد تعداد 5 ہو گئی۔ 
استحکام پاکستان پارٹی کے 3 امیداور کامیاب ہوئے۔ ایک مخصوص نشست ملنے سے تعداد 4 ہو گئی ہے۔
مجلس وحدت المسلمین کا 1 امیدوار جنرل نشست پر کامیاب ہوا۔ اسی طرح مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے ایک، ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔
جنرل نشستوں پر قومی اسمبلی میں 99 آزاد ارکان کامیاب ہوئے۔ 8 آزاد امیدوار تاحال کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔
سکیورٹی کے انتظامات
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے سکیورٹی حالات اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے اہم قدم اٹھاتے ہوئے افتتاحی اجلاس میں مہمانوں کے لیے جاری کردہ گیلری کے کارڈ منسوخ کر دیے ہیں۔

 ن لیگ 108 ارکان کے ساتھ قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ترجمان اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق افتتاحی اجلاس میں مہمانوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہوگی تاہم وزیٹر گیلری کے پاسز سکیورٹی وجوہات کے پیش نظر منسوخ کیے گئے ہیں۔
سیکریٹری کی جانب سے جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ نومنتخب معزز ممبر اپنے لیے جاری کردہ کارڈ اپنے ہمراہ لائیں، اُس کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اجلاس کے موقع پر ریڈ زون کے اندر بھی سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ مختلف شاہراؤں پر اضافی سکیورٹی تعینات کی گئی ہے۔ 
دوسرا مرحلہ: سپیکر و ڈپٹی سپیکر کا انتخاب
قومی اسمبلی میں پہلے مرحلے کی تکمیل یعنی حلف برداری کے بعد دوسرے مرحلے میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے جس کے بعد اگلے مرحلے میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ایوان کے نئے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب ہوگا۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں نے سپیکر کے لیے ایاز صادق جبکہ ڈپٹی سپیکر کے لیے پیپلز پارٹی کے غلام مصطفیٰ شاہ کو نامزد کیا ہے۔ 
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی 3 مارچ کو جمع ہوں گے جبکہ 4 مارچ کو وزیراعظم کا انتخاب کیا جائے گا۔
وزیراعظم کا انتخاب
شہباز شریف کو دوسری بار وزیراعظم بننے کے لیے 169 ووٹ درکار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کو 200 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی کا ایوان 336 ارکان پر مشتمل ہے جن میں سے 266 نشستوں پر براہ راست انتخابات کے ذریعے ارکان اسمبلی کو منتخب کیا جاتا ہے۔ باقی ارکان مخصوص نشستوں پر ایوان کا حصہ بنتے ہیں۔
 سنی اتحاد کونسل نے عمر ایوب کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ 

شیئر: