Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست مسترد

الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے کوٹے کی مستحق نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن نے اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
پیر کو الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل اور دیگر درخواستوں پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ الیکشن کمیشن نے 1-4 کے تناسب سے فیصلہ جاری کیا جبکہ ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ لکھا۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ ’ناقابل تلافی قانونی نقائص اور ترجیحی فہرست جمع کرانے کی لازمی قانونی سیکشن کی خلاف ورزی کے باعث  سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی مستحق نہیں۔ اسمبلی کی نشستیں خالی نہیں رہیں گی بلکہ باقی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔‘
 الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے میں کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی ترجیحاتی فہرست جمع کرانے میں دو دن کی توسیع کی تھی۔ آزاد امیدوروں نے کامیابی کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمعولیت اختیار کی۔‘
’ریکارڈ کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے ترجیحاتی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص مشستوں کے لیے امیدوارں کے کاغذات نامزدگی بھی جمع نہیں کرائے۔ سنی اتحاد کونسل  کے کسی امیدوار نے کسی اسمبلی کی نشست پر الیکشن نہیں لڑا۔ سنی اتحاد کونسل کا بروقت مخصوص نشستوں کی فہرستیں مہیا نہ کرنا لاعلاج قانونی نقص ہے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے انتخابی نشان کے باوجود آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔ سنی اتحاد کونسل نے تصدیق کی کہ ان کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اس لیے الیکشن ایکٹ کی سیکشن 206 کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔ آئین کے آرٹیکل 51 میں واضح درج ہے کہ جو سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں نشستیں جیت کر آئیں گی وہ مخصوص نشستوں کی مستحق ہوں گی۔‘
الیکشن کمیشن نے نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کی سیکشن 2 میں واضح درج ہے کہ سیاسی جماعت وہ تنظیم ہے جو پبلک آفس اور اسمبلی کے لیے الیکشن میں حصہ لے۔ سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے جس کے پاس انتخابی نشان ہے۔ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں بطور رجسٹرڈ سیاسی جماعت حصہ نہیں لیا۔ سنی اتحاد کونسل نے ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی جس کا مطلب ہے کہ وہ بطور سیاسی جماعت الیکشن لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ سنی اتحاد کونسل نہ الیکشن لڑنے میں دلچسپی رکھتی تھی نہ مخصوص نشست لینے میں۔‘
’الیکشن کمیشن نے ترجیحی فہرست جمع کرانے کے لیے کافی وقت دیا۔ ہر سیاسی جماعت کو اہم معاملات پر فیصلے کرتے ہوئے مستقبل میں اس کے نتائج سے باخبر رہنا چاہیے۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق کمیشن کی جانب سے مختص وقت میں جمع کرائی گئی نہ تبدیل ہو سکتی ہے نہ ہی اس میں ترمیم ہو سکتی ہے۔ واضح ہے کہ ترجیحی فہرست میں نہ کچھ شامل ہو سکتا ہے نہ نکالا  جا سکتا ہے نہ مٹایا جا سکتا ہے۔‘
فیصلے کے مطابق ’سیکشن 104 کے مطابق اگر جمع کرائی گئی ترجیحاتی فہرست ایگزاسٹ ہو جائے تو اس کے خالی ہونے پر نیا نام دیا جا سکتا ہے۔ نیا نام کسی مبر کے انتقال، استعفے، نا اہلی کے باعث خالی ہونے والے پر فہرست میں جمع کرایا جا سکتا ہے۔ کمیشن کی طے تاریخ گزرنے کے بعد پارٹی لسٹ میں نہ تبدیلی ہو سکتی ہے نا نئی فہرست جمع ہو سکتی ہے۔ اگر قانون ساز چاہتے تو وہ فہرست ختم ہونے پر نئے نام شامل کرنے کے ساتھ نئی ترجیحاتی فہرست جمع کرانے کی سیکشن بھی شامل کر سکتے تھے۔‘

سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ 2019 میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشست دی گئی (فوٹو: پی ٹی آئی)

’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ترجیحاتی فہرست میں نہ تبدیلی کی جا سکتی ہے نا مدت مکمل ہونے پر نئی فہرست جمع کرائی جا سکتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ جماعتیں مقررہ مدت میں ترجیحاتی فہرست جمع کرائیں جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ آئین کے آرٹیکل 224 چھ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا۔ آئین میں واضح درج ہے کہ اگر نشت انتقال، استعفے یا نااہلی کے ناعث خالی ہو تو ترجیحاتی فہرست میں موجود اگلا شخص اس کی جگہ لے سکتا ہے۔ آئین میں درج ہے کہ اگر فہرست ختم ہو جائے تو نیا نام جمع کرایا جا سکتا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت مقرر مدت مکمل ہونے پر نئی فہرست جمع نہیں کراسکتی اور کمیشن اسے قبول کرنے کا مجاز نہیں۔‘
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق ’الیکشن ایکٹ ترجیحاتی فہرست مقررہ مدت اور الیکشن سے قبل جمع کرانے کے معاملے پر مبہم نہیں۔ آرٹیکل 224 چھ اور سیکشن 104 واضح ہیں جن کی مزید تشریح کی گنجائش نہیں۔ واضح ہے کہ ترجیحی فہرست جمع نہ کرانے کی کوئی تلافی نہیں، اس کا کوئی حل موجود نہیں۔ آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں کہ الیکشن شیڈول میں مختص وقت ختم ہونے کے بعد نئی ترجیحاتی فہرست جمع کرائی جائے۔‘
’سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ 2019 میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشست دی گئی لیکن کمیشن کی معاونت کے لیے اس کے ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔ ناقابل تلافی مروجہ طرئقہ کار، قانونی سکم اور سنی اتحاد کونسل کی جانب سے آئین اور قانون کی لازم شقوں کی خلاف ورزی کے باعث سنی اتحاد کونسل مختص نشت کے کوٹے کی مستحق نہیں۔‘
فیصلے میں لکھا گیا کہ ’محض سیاسی جماعت میں شمولیت مختص نشست پر کوٹہ کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ نشستیں خالی چھوڑی جائیں گی۔ آئین میں درج ہے کہ نشستیں باقی جماعتوں میں تقسیم ہوں گی۔ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے کوٹہ کے لیے مستحق نہیں۔ اسمبلی کی نشستیں خالی نہیں رہیں گی اور باقی جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں گی۔‘
ممبر الیکشن کمیشن بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ ’چاروں ممبران سے اتفاق کرتا ہوں کہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہیں دی جاسکتیں۔  لیکن یہ مخصوص نشستیں باقی سیاسی جماعتوں میں بھی تقسیم نہیں کی جاسکتیں۔ یہ نشستیں آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے تحت خالی رکھی جائیں۔ آئین کا آرٹیکل 106 واضح ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو حاصل شدہ جنرل نشستوں کےمطابق مخصوص نشستیں ملیں گی۔ نشستیں تب تک خالی رکھی جائیں جب تک آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم نہیں ہوجاتی۔‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔‘ (فوٹو: پی ٹی آئی فیس بک)

الیکشن کمیشن کے فیصلے سے سنی اتحاد کونسل قومی اسمیلی میں اقلیتوں کی 3 مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔ قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل پنجاب سے 12،  خیبر پختونخوا سے 8 خواتین کی نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔
سنی اتحاد کونسل پنجاب میں خواتین کی 24 نشستوں اور غیر مسلموں کی 3 نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔ سنی اتحاد کونسل  سندھ اسمبلی میں خواتین کی 2 نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔ سنی اتحاد کونسل خیبر پختونخوا میں خواتین کی 21  اور اقلیتوں کیچ 4 نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان اسمبلی نے الیکشن میں کامیابی کے بعد اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے۔
اس بنیاد پر سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے سینیٹ آف پاکستان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں اور  الیکشن کمیشن کے تمام ممبران کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم نے قرارداد تیار کی ہے جسے ابھی سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔‘
 انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے آئین کے برخلاف فیصلہ دیا ہے۔ جمہوریت کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ آزاد امیدوار بھی جیت کر کسی دوسری پارٹی میں جائیں تو مخصوص نشستیں ملیں گی۔‘
علی ظفر نے کہا کہ ’ہم نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ صدراتی الیکشن اور سینیٹ کے الیکشن کو ملتوی کیا جائے۔‘
’آئین میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ مخصوص نشستوں کے بغیر یہ دونوں الیکشن ہوں۔‘

شیئر: