پاکستان کے نئے صدر کا انتخاب آج سنیچر کو ہو گا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں پر مشتمل حکمراں اتحاد کے امیدوار اور سابق صدر آصف علی زرداری اور سنی اتحاد کونسل و پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے نامزد امیدوار محمود خان اچکزئی کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
پولنگ کا آغاز سنیچر کو صبح دس بجے شروع ہو گیا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں قائم پولنگ سٹیشنوں پر منتخب اراکین سہہ پہر چار بجے تک اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین پارلیمنٹ ہاؤس کے اسمبلی ہال میں اپنا ووٹ ڈالیں گے جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنی اپنی اسمبلی میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔
مزید پڑھیں
-
مردِ حُر، مسٹر 10 پرسنٹ اور مفاہمت کا بادشاہ ’آصف علی زرداری‘Node ID: 842701
صدارتی الیکشن میں ٹوٹل 696 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ ان میں 336 قومی اسمبلی، 100 سینیٹ اور 65 ہر صوبائی اسمبلی کے ووٹ ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کو جو مخصوص نشستیں ملنی تھیں وہ 42 الیکٹورل ووٹ بنتے ہیں۔ ان پر پشاور ہائی کورٹ نے 13 مارچ تک حکم امتناع جاری کیا ہے لہذا اب یہ ووٹ کاسٹ نہیں ہوں گے۔ اس بنیاد پر اب ٹوٹل ووٹ 654 بنتے ہیں لیکن ان میں سے 10 الیکٹورل ووٹ خالی ہیں، یوں 644 ووٹ کاسٹ ہوں گے۔
صدر کا انتخاب خفیہ رائے دہی کی بنیاد پر ہو گا۔ اس میں سینیٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار ہو گا جبکہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ اسمبلی میں اراکین کی تعداد کو بلوچستان اسمبلی کے برابر ووٹوں میں تقسیم کر کے تناسب نکالا جائے گا۔
صدارتی انتخابات میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے لیے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور پنجاب اسمبلی کے لیے الیکشن کمیشن کے ممبر نثار درانی کو پریذائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ، خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور بلوچستان اسمبلی کے لیے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ پریذائیڈنگ افسر ہیں۔
ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی)، صوبائی اسمبلیاں اور ایوان بالا (سینیٹ) صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج ہے اور ارکان پارلیمنٹ انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔
صدارتی انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کا معاملہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہو گا لیکن صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے صوبے کی اسمبلی کے رکن کا ایک ووٹ شمار نہیں ہو گا۔

آئین کے مطابق ’کسی صوبائی اسمبلی میں ہر ایک امیدوار کے حق میں ڈالے ہوئے ووٹوں کی تعداد کو اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں فی الوقت سب سے کم نشستیں ہوں ضرب دیا جائے گا اور اس صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی مجموعی تعداد سے جس میں ووٹ ڈالے گئے ہوں تقسیم کیا جائے گا۔‘
بلوچستان اسمبلی کا ایوان سب سے کم ارکان پر مشتمل ہے جہاں 65 اراکین ہیں۔ اس طرح بلوچستان کے 65 ارکان کو پنجاب کے 371 کے ایوان پر تقسیم کیا جائے تو پنجاب اسمبلی کے 5.7 ارکان کا ایک صدارتی ووٹ تصور ہو گا۔
اسی تناسب سے 168 اراکین پر مشتمل سندھ اسمبلی کے ایوان میں 2.6 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہو گا اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے 145 ارکان کے ایوان میں 2.2 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہو گا۔
صدارتی انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہو گا اور ہر رکن کو ایک بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔ جس رکن کو بیلٹ پیپر جاری کیا جائے گا اس کے نام کا اندراج کیا جائے گا جبکہ بیلٹ پیپر پر متعلقہ پریذائیڈنگ افسر کے دستخط ہوں گے۔
بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے نام حروف تہجی کے نام سے درج ہوں گے اور ووٹ دینے والا رکن پسندیدہ امیدوار کے نام کے سامنے نشان لگا کر ووٹ دے گا۔
الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ پولنگ کا عمل شروع ہونے سے قبل متعلقہ ایوان یا اسمبلی کے ممبران میں سے ایک ایک پولنگ ایجنٹ نامزد کر سکتے ہیں جو پولنگ اور گنتی کے عمل کا مشاہدہ کرے گا۔
صدارتی انتخاب میں جس امیدوار کے ووٹ مدمقابل حریف سے زیادہ ہوں گے وہ کامیاب تصور ہو گا۔
