جہاں انسان رہتا ہے وہاں کی ثقافت سے ضرور متاثر ہوتا ہے،ہر متحرک آگے بڑھتا ہے، جو آگے بڑھے گا وہی زندہ رہے گا جو ٹھہر جائے گا وہ فنا ہوجائیگا ، شمائل احمدکی گفتگو
* * * * زینت شکیل۔جدہ* * * *
خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ تعلیم و تربیت ، علم و ادب، زبان و ثقافت خالص انسانی عمل ہے اسی لئے یہ کسی حیوان کو مقدر نہیں ہوسکا۔ اس کا تعلق نوعِ بشر کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی کوششوں سے انتہائی گہرا ہے۔ اس ہفتے’’ ہوا کے دوش پر‘‘ ہماری ملاقات شمائل احمد اور انکی اہلیہ عاصمہ شمائل سے ہوئی۔ ان کا تعلق چونکہ درس و تدریس سے ہے اس لئے ہمارا موضوعِ گفتگو بچوں کی تعلیم و تربیت رہا۔اس ملاقات کا احوال نذرِ قارئین:
٭یہ بتائیے کہ کم عمری میں تعلیم و تربیت کس نہج پر کی جانی چاہئے تاکہ بچہ بڑے ہو کر ایک بہترین شہری بن کر معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکے؟
٭٭ہم عموماًبچوں کیلئے سوچ لیتے ہیں کہ وہ ابھی زیادہ کچھ نہیں سیکھ سکتے بلکہ جیسے جیسے عمر میں اضافہ ہوتا جائے گا وہ سیکھتے جائیں گے لیکن ہمیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بچپن کی تربیت اور ان کی بہترین تعلیم ان کی شخصیت کو جلا دیتی ہے ۔بعد کے ادوار میں زندگی کے تجربات سے سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے لیکن شخصیت سازی دراصل بچپن کے ایام میں ہی ہوجاتی ہے اس لئے اسکول میں ابتدائی جماعتوں میں ایسی محنتی اورذہن اساتذہ کو چنا جاتا ہے کہ جن میں نہ صرف بہترین تعلیمی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت ہو بلکہ ان میں صبر و برداشت کا مادہ بھی زیادہ ہو تاکہ جب بچے ان سے بار بار سوالات کریں تو وہ انہیں جوابات دیکر مطمئن کرسکیں۔ یہ بھی جاننا چاہئے کہ بچہ گھر کے ماحول سے جب اسکول پہنچتا ہے تو یہ اسکا دوسرا گھر بن جاتا ہے۔ اسی لئے اساتذہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچوں کی تربیت پر بھی توجہ دیں۔ عموماً ایک عمر گزر جانے کے بعد لوگوں سے اس بارے میں تبادلہ خیال کریں تو معلوم ہوگا انہیں کالج، یونیورسٹی سے زیادہ اپنے اسکول کے ایام یاد آتے ہیں۔ انہیں اپنے اساتذہ کے نام اور ان کی کہی ہوئی باتیں یاد رہتی ہیں۔ اپنے ہم جماعتوں کی شرارتیں اور وہ سنہرا دور سب سے عزیز ہوتا ہے۔
٭آج ترقی کے منازل طے کرنے کے لئے سب سے اہم کیاہے ؟
٭٭عاصمہ نے ہمارے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اسلام نے بطور خاص علم کی فرضیت اور اسکی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت نے انسان پر ثابت کردیا ہے کہ ہر قوم کی فلاح و فروغ تعلیمی ترقی پر منحصر ہے۔
٭ آپ کا بچپن کیسا گزرا ؟
٭٭ عاصمہ شمائل نے کہاکہ ہر بچے کی طرح میں بھی بچپن میں کچھ شرارتی اور ذہانت کی باتیں جلد سیکھنے والی تھی۔ کھیل کود میں بھی حصہ لیتی تھی۔ میرے والد معظم صدیقی اور والدہ نسیم صدیقی دونوں ہی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کئی سال بیرون ملک رہنے کے باوجود بہترین تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کی۔ والد چونکہ خود چارٹررڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، ڈائریکٹر کی حیثیت سے آئی سی ایم اے سے ریٹائر ہوئے ہیں، ان کی تمام زندگی تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ والدہ ہاؤس وائف ہیں۔ والدین میرے بھائی عاصم صدیقی کے ساتھ رہتے ہیں جو امریکہ میں رہائش پذیر ہیں ۔ وہ بیشتر احباب کو بہترین اور درست شعبۂ تعلیم کو اختیار کرنے میں گائیڈ بھی کرتے رہتے ہیں۔ عاصم صدیقی الیکٹریکل انجینیئر ہیں اور اپنی ذمہ داریوں میں مصروف رہتے ہیں لیکن پھر بھی والدین کیلئے وقت نکالتے ہیں اور سیر وتفریح کا پروگرام بناتے رہتے ہیں ۔ ہماری بھابھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین خوبیوں کی حامل ہیں ۔ والدین کی خدمت ان کی اولین ترجیح ہے۔
٭ادب و ثقافت سے آپ کو دلچسپی ہے یا نہیں؟
٭٭ جہاں انسان رہتا ہے وہاں کی ثقافت سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ ہم لوگ کئی سال تنزانیہ میں رہے ۔وہاں کی معاشرت کچھ افریقی انداز کی تھی۔ انڈین آغا خانی بڑی تعداد میں رہائش پذیر تھے۔ بچپن میں وہاں رہتے ہوئے جو الفاظ سنے تھے ان میں سے چند ایسے ہیں جو ابھی تک یاد ہیں۔ جیسے بچوں سے سوال پوچھتے ہیں کہ تم کیسے ہو، بچہ جواب دیتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں۔ یہی چھوٹے چھوٹے لفظ یعنی سواہلی ، جامبو، مباری، تظرولی وغیرہ۔ وہاں چونکہ برصغیر کے بہت کم لوگ آباد تھے تو سب کے سب پہلے تو 14 اگست مناتے تھے پھر دوسرے دن کی تقریب دیکھتے تھے۔ وہاں ناریل کے درخت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ناریل کے درختوں کے جھنڈ جا بجا نظر آتے ہیں۔ ان درختوں کی صورت میں لوگوں کیلئے نہ صرف ناریل کا پھل میسر ہے بلکہ اسکا سایہ دار اور پرفضا ماحول سب کچھ ہی دستاب ہے جو لوگوں کو بے حد فائدہ پہنچاتا ہے ۔
٭تنزانیہ میں اردوزبان بولی جاتی تھی یا نہیں؟
٭٭ اس بارے میں عاصمہ شمائل نے کہا کہ کسی بھی ملک کا قومی تشخص اسکی قومی زبان ہوتی ہے ۔اردو بلاشبہ مقبول عام زبان ہے، عالمی مشاعرے ہر اس جگہ منعقد کرائے جاتے ہیں جہاں جہاں اردو بولنے والے اورسمجھنے والے موجود ہیں۔
٭آجکل آپ کینیڈا میں رہتی ہیں توبچو ںکی تعلیم میں کس طرح مددگار بنتی ہیں؟
٭٭ والدین اپنے بچوں کو اس نہج پر لانے والا بنائیں کہ وہ خو د فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیں کہ انہیں کس شعبۂ تعلیم کو اختیار کرنا ہے اور ان کی صلاحیت کس میدان عمل میں بھرپور ہوگی۔ مشورہ دینا اور مشاورت میں شامل رہنا صحت مند رویہ ہے جو والدین کو اپنانا چاہئے۔
٭ آپ کے بچوں میں سب سے بڑی صاحبزادی ایمن شمائل نے سی پی اے کا امتحان دیا اور ان کا تعلیمی ریکارڈ بہترین رہا۔ یہ سب اتنا آسان نہیں۔ اس کے لئے آپ نے کیا قربانی دی؟ جبکہ دونوں صاحبزادوں جہانگیر احمد اور دانیال احمد نے بالترتیب کمپیوٹر گرافکس اور اکاؤنٹس کے شعبوں کو اپنایا ہے۔
٭٭ جب کینیڈا کی امیگریشن کے لئے اپلائی کیا تو یہی نکتہ ذہن میں سب سے اہم تھا کہ خود بھی بچوں کے ہمراہ رہنا ہے ۔ان کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنا آپ وقف کرنا ہے۔ میرے شوہرشمائل احمد نے بچوں کی بہبود کی خاطر جو فیصلہ کیا اور ملازمت کی ذمہ داری کی وجہ سے یہاں رہائش رکھی،تنہا رہے، یہ بہت بڑی قربانی ہے۔ خاندان کے آنے جانے کا سلسلہ رہا ۔ سال میں دو مرتبہ بچے سمسٹر مکمل ہوتے ہی والد کے پاس آجاتے ۔ کبھی شمائل کینیڈا کا سفر کرتے۔ اب بچے اس عمرکو پہنچ چکے ہیں کہ تعلیمی مدارج بھی تقریباً طے ہوچکے ہیں تو انہیں یہی محسوس ہوتا ہے۔ وہ اس حقیقت کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہماری بہتری کی خاطر بہت زیادہ قربانی دی۔ والدہ نے ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں اٹھائیں۔ اکیلے غیر ملک میں پوری فیملی کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، مختلف ماحول میں بچوں کی تربیت پر توجہ مرکوز رکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ والد کیلئے ان کے دل میں بہت قدر ہے ۔وہ بچوں کے بہترین مستقبل کیلئے خود اکیلے یہاں رہے چونکہ خود چارٹر ڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، اس لئے ذہنی کاوش سے تھکن بھی ہوجاتی ہے لیکن بچوں کیلئے ہمیشہ ہشاش بشاش رہ کر وہ ویب سائٹ پر باتیں کرتے، انہیں ہر طرح سے سپورٹ کرتے اور ہر اچھی کارکردگی کو سیلیبریٹ بھی کرتے۔ اس طرح بچوں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی اور وہ پہلے سے زیادہ جوش و ولولہ کے ساتھآگے بڑھنے کی ہمت و حوصلہ پاتے۔
٭اپنے بچپن کے بارے میں مزیدکچھ بتائیں؟
٭٭اس سوال پر عاصمہ شمائل نے اپنے بچپن کی کئی اساتذہ کا ذکر بڑی محبت سے کیا جن میں مسز مظہر اور مسز مسرت اسکول ٹیچرز تھیں جبکہ کالج میں اکنامکس کی لیکچررمسز قریشی بھی ان کی پسندیدہ تھیں۔ انہوں نے بتایاکہ والدین کی باتیں ہمیشہ رہنمائی کرتی ہیں۔ والدہ نے ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کے اوصاف سکھائے۔ والد نے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے کوشاں رہنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہترین تعلیمی اداروں میں میرے او ربھائی کے تعلیمی مدارج طے ہوئے۔ مجھے اپنے کالج سینٹ جوزف کی سہیلیاں یاد ہیں اور اکثر آج بھی ہم رابطے میں رہتی ہیں۔
٭تحریر و تقریر سے آپ کوکوئی شغف رہا یا نہیں؟
٭٭ اصلاح ِ معاشرہ مصنف کا منشور ہونا چاہئے۔ ایک اچھے مصنف میں یہ خوبی ہونی چاہئے کہ اسکی نگاہ حالات پر گہری ہو۔ اسکا مشاہدہ و مطالعہ وسیع ہو۔ اپنے موضوع پر معلومات مکمل ہو ، زبان پر عبور حاصل ہو۔ ایمن شمائل کا کہنا ہے کہ انسان کو متحرک رہنا چاہئے ۔ سفر نامے، معلوماتی کتب زیر مطالعہ رہنی چاہئیں۔
٭برصغیرکی شخصیات میں سے آپ کی پسندیدہ کون ہیں؟
٭٭ سرسید احمد خا ن میری پسندیدہ شخصیت ہیں جو معمار قوم بھی تھے۔ آپ کے قلم میں بہت طاقت تھی۔ وہ عربی اور فارسی کے بہت بڑے عالم تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیادانہوں نے ہی رکھی تھی جہاں کے فارغ التحصیل علمی اعتبار سے ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
٭٭جہانگیر احمد کی پسند یدہ شخصیت سلطا ن صلاح الدین ایوبی ہیں جواپنے آخری دنوں میں جزیرہ شام، فلسطین، مصر اور بے شمار دوسرے زرخیز علاقوں کے حکمران تھے مگر جب انتقال ہوا تو ان کے پاس صرف ایک دینار اور چالیس درہم تھے۔ اسکے علاوہ انکے پاس کسی قسم کا مال یا املاک یا نقدرقم نہیں تھی کیونکہ جو کچھ انہیںملتا وہ راہ حق میں خرچ کردیتے تھے۔
٭٭دانیال احمد کو حکیم الامت علامہ اقبال کی شخصیت بہت بھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ علامہ اقبال اردو شاعری کی تاریخ میں رسمی اور غیر رسمی دونوں سطح پر سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ ان کے اشعار اکثرطلباوطالبات کو یاد رہتے ہیں جیسا کہ یہ شعر:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے ،بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر ان کی والدہ کو پروین شاکر کی شاعری اچھی لگتی ہے۔
٭٭شمائل احمد کہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ نے بچوں کی تربیت میں دن رات ایک کیا۔ ان کی اسی محنت و جانفشانی کا نتیجہ ہے کہ الحمدللہ، تینوں بچوں نے تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت والدہ سے پائی۔ اپنے رشتہ داروں کے علاوہ بھی احباب میں جہاں ضرورت پڑتی ہے ،ہر طرح کی سپورٹ کرتے ہیں۔ مل جل کررہنے اور صحت مند مشاغل اپنانے میں سب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ حلقہ احباب میں سب ہی ان کی تعریف کرتے ہیں ۔ شمائل ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر کلیم عاجزان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ انکا کہناہے کہ ہر ذی روح محنت اور کوشش کی محتاج ہے۔ ہر متحرک آگے بڑھتا ہے اور جو آگے بڑھے گا وہی زندہ رہے گا۔ جو ٹھہر جائے گا وہ فنا ہوجائیگا۔ انسان اس لئے زندہ ہے کہ وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہر رکاوٹ انسان کیلئے تجربے کی ایک کڑی ہے اور ہر تجربہ انسان کی جرأت کے لئے ایک مہمیز ہے اور ہر مہمیز اسکی شمشیرِ فراست کیلئے صیقل ہے۔