Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوا م کے مسائل روٹی ،کپڑا، مکان، ثقافتی روا یات لایعنی

’’اعلیٰ دما غو ں کے لئے صحت مند جسم چا ہئے،تعلیمی منصوبہ بندی میں اپنی ثقافت سے معمور کھیلوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے
* * * * * تسنیم امجد۔ریاض * * * * *
’’ہا پو ٹا پو اور او لمپکس‘‘کیا خوبصو رت خوا ب ہے ؟ اس کی تعبیر تبھی ممکن ہے جب قو م خوشحال ہو اور اس کی خوا ہشوں کا احترام کر نے وا لے مو جود ہو ں۔جس ملک میں عوا م کے مسائل روٹی ،کپڑے اور مکان کے گرد گھوم رہے ہوں، قوم کو اسی میں الجھا دیا گیا ہو وہا ں ثقافتی روایات لایعنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ وہی قو میں دنیا میں طا قت ور شمار ہو تی ہیں جنہوں نے کھیل کود کو تعلیم کا اہم جز بنایا۔قدیم یو نان جس نے افلا طون ،سقراط اور ار سطو جیسی ہستیا ں پیدا کیں، ان کے ہا ں کھلا ڑی کئی کئی سال مشق کیا کر تے تھے تا کہ اولمپکس کے لئے ان کا انتخاب ممکن ہو سکے ۔اولمپک کھیلوں میں شامل ہونا ہی ایک بڑا اعزازسمجھا جاتا تھا ۔اہل روما نے بھی کھیلوں کو بہت اہمیت دی۔تا ریخ کے اوراق پلٹے تو یہ حقیقت کھلی کہ نپو لین جیسے ماہر جر نیل کو ’’ واٹر لو‘ ‘ کے میدان میں شکست دینے والے وہی کھلا ڑی تھے جنہوں نے ’’ ایٹن‘ ‘ کے کھیل کے میدان میں مقا بلہ ، جرأت اور استقلال کی تربیت حا صل کی تھی ۔ ہمارے ہاں کھیل کی جا نب راغب طلباء کو تعلیم پر تو جہ دینے کی تلقین کی جاتی ہے کیو نکہ ڈگری کا حصول زیا دہ اہم ہے جبکہ تعلیم کا مقصد با شعور اور ذمہ دار شہری وجو د میں لانا ہے جو وطن کے مستقبل کے امین اور معمار ثابت ہوں۔
ہمیں نہ تو کمزور و نا تو اں کتا بی کیڑوں اور رٹوتوتو ں کی ضرورت ہے اورنہ ایسے لو گو ں کی جو اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھ سکیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلو ں ،ورزش اور جسما نی تر بیت کو کسی بھی لحاظ سے مطا لعے سے کم تر درجہ نہیں دیا جا سکتا جس کا اعتراف ہر سطح پر کیا جا چکا ہے ۔مسلما نوں کے ہاں بھی کبھی تعلیم سے وابستہ اور کبھی جدا طور پر جسما نی صحت کے فروغ کے لئے تر بیت گا ہیں قا ئم رہی ہیں۔آج بھی ان پر تو جہ دی جا رہی ہے لیکن صرف ہا کی، فٹ با ل اور کرکٹ پر ۔
کچھ کھیل ایسے ہیں جو صرف لڑکیو ں پر جچتے ہیں جبکہ کچھ صرف لڑکو ں پر ،لیکن یہ فرق ختم کر نے کی کو شش میں خاصی کا میا بی حاصل ہو چکی ہے ۔وہ کھیل جو عام طور پر بچوں کوبچپن میں مرغوب ہو تے تھے، اب ان کی جگہ مو با ئل اور ٹیبلٹ نے لے لی ہے جن سے بچے بچیا ں ایک ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے آنکھو ں کا ایند ھن جلا تے ہیں۔ اس طر ح نہ صرف صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ گھر والو ں سے بھی رابطے منقطع ہو جاتے ہیں اور انجام کا ر وہ لا تعلقی کا شکار ہو جا تے ہیں۔ ہمیں آج و ہ دن بے حدیاد آتے ہیں جب چھپن چھپا ئی کھیلی جا تی تھی۔ اکثر اس کھیل میں گھر کے بڑے بھی شامل ہو جا تے تھے۔واہ کیا خوب مزہ آ تا تھا۔ پیرا شو ٹ ،رسی کو دنا، خر گوش کی دوڑ ، کو کلا چھپا کی ،میو زیکل چیئر ،کک بال ،ککلی ،گھر گھر،برف پا نی ،ٹپ ٹاپ وغیرہ وغیرہ ۔ کسی شاعر نے ’’آزادی ‘‘ کے ساتھ اپنے احساسات کا اظہار یوں کیا ہے:
چلو پھر لوٹ کر بچپن میں چلتے ہیں
کبھی میں چور بن جا ؤں ،سپا ہی بن کر تم ڈھو نڈو مجھے
کبھی پٹھو گرم تو ڑیں اور ہنس کر بھا گ جا ئیں ہم
یا وہی کھیل جس میں آ نکھ بند کر کے بیٹھے کو ئی اور چھپیں با قی
بنو تم دادی اماں اور بلا ئو اپنے بچوں کو
کبھی لڈو کا لا لچ دو ،کبھی سو نے کے نیکلس کا
چلو پھر لو ٹ کر بچپن میں چلتے ہیں
بہت دن ہو گئے اس بیکار کی دنیا میں اب رہتے
اس طر ح کے کھیل کود میں بر دا شت اور میل جول شخصیت کا حصہ بن جا تا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب ہم اپنی ثقافت کو خیر آبادکہنے پر تلے ہوئے ہیں تو ان کھیلو ں کو کو ن یا د رکھے گا؟با نیٔ پاکستان قا ئد اعظم محمد علی جنا ح نے بھی پہلی او لمپک گیمز 1948ء کے مو قع پرکہا تھا کہ : ’’اعلیٰ دما غو ں کے لئے صحت مند جسم چا ہئے اور یہی وجہ ہے کہ اقوا م عا لم ورزشی کھیلوں کو بہت اہمیت دیتی ہیں اور اپنے ملکو ں میں اس کو پھیلانے اور تر قی دینے میں کو شا ں نظر آتی ہیں۔مجھے قوی امید ہے کہ ہماری مختلف اسپو ر ٹس انجمنیں بھی پا کستان کو اعلیٰ، مضبوط اور طاقتور بنا ئیں گی۔ـ
ہمارے ہا ں من پسند کھیلو ں کو رواج دیا جا نے لگا ہے اس کی ایک مثال ’’لڑ کیو ں کی کُشتی‘‘ ہے۔کیا یہ ہما رے کلچر کا حصہ ہے ؟ اسی طرح میراتھن بھی غیروں کی نقل ہے۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر میں دکھایاجانے وا لا کھیل بین ا لمدارس اور پھر بین الصو با ئی سطح پر مقبول بنائے جانے کے بعد اسے بین ا لاقوامی سطح پر متعارف کرایا جا سکتا ہے ، اس کے مقابلے منعقد کر وا کر انفرا دیت کی ایک مثال قا ئم کی جا سکتی ہے ۔
ہمیں اس حقیقت کا ادراک کر لینا چا ہئے کہ انسانی فطرت تنو ع پسند ہے۔ اس لئے کھیلو ں میں لا ئی گئی تبدیلی بھی پسند کی جائے گی اور یوں ایک روایتی کھیل کی حیثیت سے ’’ہاپوٹاپو‘‘ کا فروغ ممکن ہو گا ۔ اپنی ثقافت کو فروغ دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسی سے قو م کی پہچا ن ہو تی ہے اور انفرا دیت قا ئم رہتی ہے۔ اکثر ہمارے کھیل ٹیم کی صورت میں کھیلے جا تے ہیںجو مسا بقتی رحجا ن پیدا کر تے ہیں۔اس طرح دما غ کو با لیدگی ملتی ہے اور لیڈر کی فرمانبرداری کی تربیت بھی ملتی ہے ۔
آج کے دور میں پا کستا نی ثقافت کی تشہیر اور فروغ کا ذکر کرنا کسی مذاق سے کم نہیں کیونکہ ہم تو اسے بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔اغیار کی ثقافت اب ہمارے دل و دما غ پر چھا چکی ہے۔ہمیں اس حقیقت کا ادراک کر نا چا ہئے کہ یہ احساس کمتری کی علا مت ہے جبکہ ہم توقا بل فخر قو م ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ہماری نقا لی دوسروں نے کی اوروہ منفرد بن بیٹھے۔ذرا سوچئے ہم نے ایسا کیوں کیا ؟ اپنی معصوم و ما مو ن، خو بصو رت و خوب سیرت ،سادہ اور قابل تعریف تہذ یب و ثقا فت سے منہ موڑ کر غیروں کی پر تصنع ،پیچیدہ ، بے لگام اور بے دام ثقافت کو دل و جان سے اپنا نا کہا ں کی عقلمند ی ہے؟ ہم اوروں کے لچھن اپنا کر نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ مثل ہے کہ: ’’کوا چلا ہنس کی چال ،اپنی بھی بھول گیا‘‘ یا یوں کہئے کہ اپنوں کے پیار کو نظر انداز کر تے ہوئے ہم غیروں کی چمکار کو اپنے لئے اعزاز سمجھنے لگے۔ ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہئے کہ ثقافت قوموں کی زندگی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ دشمن ہمیشہ ثقافت پر وار کر کے تبا ہی کا تما شا دیکھتا ہے اور معصوم قو میں اس چھپے وار کو سمجھ نہیں پا تیں ۔ ثقافت ایک قیمتی ورثہ ہے۔ ہمیں یکجہتی سے نسل نو کو واپس لے جا نا ہے۔ان کے لئے وقت نکا لنا ہے ۔جدید ٹیکنالو جی سے مستفید ضرور ہو ں لیکن ٹائم مینجمنٹ کو مد نظر رکھیں۔ بلا شبہ ہما رے ثقافتی کھیل اتنے دلچسپ ہیں کہ انہیں دیکھ کر بچے آپ کو مجبور کریں گے کہ آپ بھی ہما رے ساتھ کھیلئے۔ کل ہی کی بات ہے کہ آپی نے بیٹی کے ساتھ کچن میں ہی کام کے وقفے کے دوران ،’’ چیل اُڑی، چڑیا اُڑی، ون برڈ فلا ئی‘‘ کھیلا تو اسے اتنا بھایا کہ وہ ضد کر نے لگی کہ دوبارہ کھیلیں۔اسی طرح ’’اونچ نیچ‘‘ بھی بہت پسندیدہ کھیل ہے۔ ’’ہا پو ٹا پو‘‘ کا میچ تو بہت ہی دلچسپ رہتا ہے۔ہمارا تجربہ ہے کہ وقت ہم سے تجدید نو کا متقا ضی ہے۔تعلیمی منصوبہ بندی میںنہ صرف کھیل کے میدا ن بلکہ اپنی ثقافت سے معمور کھیلوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔

شیئر: