Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن، ایف آئی اے کامیاب ہو پائے گی؟

وفاقی وزارت داخلہ نے بجلی کی چوری کرنے کے خلاف کارروائیوں کی ہدایت کی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے نئے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے آتے ہی بجلی اور گیس چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے ایف آئی اے کی خصوصی فورس بنانے کی ہدایت جاری کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف آئی اے نے ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں میڈیا کو اطلاعات جاری کرنا شروع کر دیں۔
سرکاری تخمینوں کے مطابق پاکستان میں سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور بجلی فراہم کرنے والی 10 تقسیم کار کمپنیوں میں سے بیش تر اس چوری کے باعث خسارے کا دعوٰی کرتی ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سال 23-2022 میں خیبرپختونخوا میں 137 ارب روپے، بلوچستان میں 97 ارب روپے، سندھ میں بجلی کی مجموعی ترسیل کی تقریبا 50 فیصد اور پنجاب میں 14 سے 16 فیصد تک بجلی چوری ہوئی۔
چوری کی سب سے زیادہ شکایات صوبہ خیبر پختونخوا سے آتی ہیں اور وہاں سے وصولیاں کرنے میں بھی مشکلات ہوتی ہیں جس کی ایک وجہ گزشتہ بسوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ہم آہنگی نہ ہونا بھی ہے۔
اس معاملے پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی حکمت عملی میں بھی فرق رہا ہے۔
اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا میں حکمران پاکستان تحریک انصاف کے اہم رکن شوکت یوسفزئی نےمحسن نقوی کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی جماعت بجلی چوری کے خلاف آپریشن میں وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے ساتھ وفاق کو صوبے کے بقایا 1500 ارب روپے بھی جاری کرنے چاہییں۔
گزشتہ برس اگست میں آنے والی نگراں حکومت کے دور میں بھی بجلی چوروں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا گیا تھا جس کے دوران تقریباً چھ ماہ میں 43023 افراد گرفتار اور 70.20 ارب روپے وصول کیے گئے۔
 ایف آئی اے کا بجلی چوری روکنے کا نیا منصوبہ کیا ہے ؟
بجلی چوری روکنے کے لیے آپریشن کا اعلان تقریباً ہر حکومت کرتی رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی خصوصی ٹیمیں تشکیل دے کر اس کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے لیکن ابھی تک کسی ادارے کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)  کے ترجمان عبدالغفور نے اردو نیوز کے استفسار پر بتایا کہ بجلی چوری کے نئے آپریشن کے فوری بعد ان کے ادارے کی ٹیمیں ملک بھر میں متحرک ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ کیے جانے والے آپریشن میں انتہائی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں اور نہ صرف یہ کہ بجلی چوری کرنے والوں کے کنکشنز فوری طور پر منقطع کیے جا رہے ہیں بلکہ ان کو موقعے پر گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔

نگراں حکومت کے دور میں بھی بجلی چوروں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس مرتبہ شروع کیے گیے آپریشن میں گیس چوروں کے خلاف کارروائی کا بھی اعلان کیا گیا تھا تاہم ترجمان ایف آئی اے کے مطابق اس وقت پہلی ترجیح بجلی چوروں کے خلاف کارروائی ہے۔ گیس کمپنیوں کی جانب سے چوروں کی نشاہدہی پر ایف آئی اے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کارروائی کرے گی
کیا ایف آئی اے کے پاس کریک ڈاؤن کے وسائل ہیں؟
ایف آئی اے پہلے ہی بہت سارے معاملات منی لانڈرنگ، سائبر کرائم، حوالہ ہنڈی، انسانی سمگنگ وغیرہ پر کام کر رہی ہے اور حکام کئی مرتبہ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہونے کی نشاندہی کر چکے ہیں۔
تو کیا ایف آئی اے بجلی چوروں کے خلاف کامیاب آپریشن کر سکے گی اور کیا اس کے پاس اتنے وسائل ہیں؟
ماہر توانائی ارشد ایچ عباسی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بجلی چوری روکنے کے لیے ایک بار پھر ٹیمیں تشکیل دینا محض رسمی کارروائی ہے۔
 ’اس سے بجلی کا شعبہ بہتری کی طرف نہیں جا سکتا کیونکہ بجلی چوری میں بھی کچھ سرکاری عناصر ملوث ہوتے ہیں۔‘

ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق بجلی چوری کرنے والوں کو موقعے پر گرفتار کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: سکرین  گریب)

ارشد ایچ عباسی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے چھاپے مارنے سے زیادہ ضروری ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
’بجلی شعبے کا ترسیلی نظام بہتر بنا کر اور میرٹ پر قابل افسران تعینات کر کے ہی بجلی چوری اور نقصانات کم کیے جا سکتے ہیں۔‘
کئی برسوں سے ایف آئی اے کے دائرہ کار اور کارکردگی پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی اعزاز سید بھی کہتے ہیں کہ ’بجلی چوری روکنے جیسے آپریشن روکنے کے لیے ایف آئی کو متعلقہ وسائل کی فراہمی ضروری ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایف آئی اے میں اس وقت افرادی قوت کی خاصی کمی کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں اایف آئی اے کے لیے ایسے بڑے ٹاسک ایک مشکل کام بن سکتے ہیں۔‘ 
’افرادی قوت کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کو قابل قیادت کی بھی ضرورت ہے۔‘
تاہم ترجمان ایف آئی اے کے مطابق وہ یہ آپریشن بخوبی انجام دے رہے ہیں اور بجلی فراہم کرنے والی متعلقہ کمپنیوں کے عملے کے ساتھ مل کر ان کے علاقے میں کارروائیاں کرتے ہیں جس کی وجہ سے افرادی کمی جیسے مسائل ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بن رہے۔
ماہر توانائی فیاض چوہدری کے خیال میں پاکستان میں بجلی چوری کا معاملہ ایک انتظامی مسئلہ ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بجلی چوری روکنے کے لیے تقیسم کار کمپنیوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
’ بجلی تقیسم کار کمپنیاں ٹیکنالوجی اور گڈ گورننس کے ذریعے بجلی نقصانات کو تو کم کر سکتی ہیں تاہم بجلی چوروں کو شکنجے میں لانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تعاون درکار ہوتا ہے۔‘

شیئر: