نبی اکرم نے معاشرے کے دیگر محروم طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ معاشرتی تعطل کے بغیرہر میدان میں آگے بڑھ سکیں
* * * * *عابدہ رحمانی۔امریکہ* * * * *
ہمارے نبی کریم حضرت محمد مصطفی کے والد ماجد حضرت عبداللہ کا انتقال اسو قت ہوا جب آپ شکم مادر میں تھے یعنی آپکی پیدائش سے پہلے ہوا اور آپ ایک یتیم کی حیثیت سے اس دنیا میں تشریف لائے۔محض6 برس کی عمر میں آپ کی والدہ بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ایک معصوم اور کمسن بچے کیلئے یہ دور انتہائی المناک ہے کہ وہ ماں باپ دونوں کی محبت، شفقت اور نگرانی سے محروم ہو ۔اور ماں کے انتقال کے بعد یتیمی کا دکھ دوگنا ہو جائے۔ آپکی کفالت و تربیت پھر آپکے دادا عبدالمطلب کے زیر سایہ ہوء اور انکے انتقال کے بعد آپکے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اور پرورش کی۔
آپ دنیا بلکہ پوری کائنات کے وہ نامور ،معرکۃ الارا یتیم تھے جنہوں نے نبوت اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی رشد و ہدایت حاصل کرنے کے بعد اہل عرب اور پوری دنیاکے لئے دین ،تاریخ ،تہذیب و ثقافت کا دھارا بدل ڈالا۔اس انقلاب نے پوری دنیا کو ایک نئی روشنی اور رہنمائی دکھادی۔ آپ کی مثال اُن یتامیٰ کے لئے ایک مشعل راہ اور منارۂ نور کا مقام رکھتی ہے جو یتیمی کے باعث معاشرے میں پسماندہ سمجھے جاتے ہیں۔ عموما ً’’یتیم ‘‘معاشرے کا ایک ایسا بے بس فرد یا بچہ ہے جو باپ یا والدین کی محبت سے محروم ہوکر عزیز، رشتہ داروں اور معاشرے کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ایسی بے شمار کہانیاں مشہور ہیں جہاں بے رحم عزیز رشتہ دار اور معاشرہ یتیم پر انتہائی ظلم وستم ڈھاتے ہیں۔ انکی جائدادیں اور اثاثے ہڑپ کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔یتیم بچیوں کے ساتھ بڑی عمر کے مرد نکاح کر لیتے ہیں یا دیگر زیادتیاں بھی روا رکھی جاتی ہیں۔
انکو ایک ملازم سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتے۔یہ بیشتر اُن شیطان صفت لوگوں کے کام ہوتے ہیں جنکے دلوں میں اللہ کا اور اپنے انجام کا خوف نہیں ہوتا ۔اسلام اور قرآن نے یتیموں کے حقوق کے متعلق سخت احکامات دیئے ہیں۔ قرآن میں آیت ہے: اگر تم یتیم کا مال کھاؤگے تو گویا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھروگے۔ نبی اکرمنے یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ سوائے احسن طریق کے اور یتیموں کامال جن لوگوں کے پاس آتا ہے وہ اس کے امین ہیں اس لئے اسے ان یتیموں کی بہتری کیلئے استعمال کرنا چاہئے اور جب وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو انصاف اورپورے حساب کتاب کے ساتھ ان کے مال انہیں لوٹا دو اورعدل سے کام لو اوراللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو، یہ وہ امر ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو ، پس ہمارا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمت اور شفقت کی وجہ سے ایمان میں بڑھنے اور نیک اعمال بجالانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یتیم کی کفالت اور سرپرستی کے متعلق رسول اللہکے چند اور فرمان ہیں: ¤ حضور نبی اکرم نے معاشرے کے دیگر محروم المعیشت طبقات کی طرح یتیموں کے حقوق کا بھی تعین فرمایا تاکہ وہ بھی کسی معاشرتی یا معاشی تعطل کا شکار ہوئے بغیر زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکیں۔ آپ نے یتیم کی کفالت کرنیوالے کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے( اور آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے ذریعے یہ بات بتائی)۔‘‘ ¤ سھل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ( آپ نے اپنی 2 انگلیوں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا)۔‘‘(بخاری)۔ ¤ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ یتیم اس کا رشتہ دار ہو یا غیر، جنت میں اس طرح ہوں گے، جیسے یہ 2 انگلیاں(مسلم)۔
امام مالکؒنے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔ قرآن حکیم میں یتیموں کے حقوق کو بڑے جامع انداز سے بیان کیا گیا: ’’ور وہ (لوگ) تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں، (ان سے) کہو (جس بات میں) ان (یتیموں ) کی اصلاح (اور بہتری) ہے، وہ تمہارے لئے بھی بہتر ہے، اور اگر تم ان سے مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی بند ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ کون مفسد ہے اور کون مصلح اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں سخت مشکل میں ڈالتا، وہ اختیار والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ اس ایک آیت میں یتیموں کے وہ تمام حقوق بیان کئے گئے ہیں جو معاشرے پر عائد ہوتے ہیں۔
حضور نبی اکرم یتیموں اور مسکینوں کے لئے رحمت اور سراپا لطف و عطا تھے۔ مساکین کو تکلیف میں دیکھ کر آپ ان کے دکھ درد کے ازالے کیلئے کمر بستہ ہو جاتے تھے۔ آپ نے یتامیٰ و مساکین کی تکالیف کے ازالے کو معاشرے کا فرض قرار دیا۔ ارشاد النبی ہے: ’’بیوہ اور مسکین کیلئے امدادی کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے اور اس شب بیدار کی طرح ہے جو کبھی سستی محسوس نہیں کرتا اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی روزے نہیں چھوڑتا۔‘‘ قرآن و حدیث میں یتیموں کی مالی کفالت میں احتیاط اور نگرانی پر زور دیا گیا تاکہ ان کی املاک ضائع نہ ہوں۔فرمانِ الٰہی ہے:
٭ تم اپنے مال کو نادان اور کم عمر لوگوں کے حوالے نہ کر دو (کیونکہ) تمہارا مال و دولت اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے معیشت و زیست کا سامان بنایا ہے، ہاں انہیں (کم سنی کے زمانے میں) ان کے مال میں سے کھانے کو دو، پہننے کو دو اور انہیں نیک اور عمدہ تعلیم دو۔
٭ اور یتیموں کا امتحان لیتے رہو، یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں (ہر طرح کی) سمجھداری کی صلاحیت پائو تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور (اس خوف سے) ان کے مال کو فضول خرچی سے ضائع نہ کر دو کہ وہ بڑے ہو کر طلب کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ دوسرے مقام پر یتیموں کے حقوق کی پامالی پر سخت و عید سنائی گئی: ’’جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ گویا (یہاں بھی) اپنے پیٹوں میں انگار بھر رہے ہیں اور آخرت میں تو وہ دوزخ کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔‘‘ قرآن حکیم میں یتیموں کے حقوق کی ادائیگی پر متعدد مقامات میں زور دیا گیاہے:
٭ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرمادیں جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
٭ اور یتیموں کو ان کے مال دیدو اور بُری چیز کو عمدہ چیز سے نہ بدلا کرو اور نہ ان کے مال اپنے مالوں میں ملا کر کھایا کرو یقینا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
٭ اور یتیموں سے معاملہ کرنیوالے لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے پیچھے چھوٹے ،ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو مرتے وقت ان بچوں کے حال پر کتنے خوفزدہ اور فکر مند ہوتے سوا نہیں یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور فکر مند ہوناچاہئے۔ سو انہیں یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور ان سے بہترین طریقے سے بات کرنی چاہیے۔
٭ بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جاگریں گے۔
٭ اور جان لوکہ جو کہ مال غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول کے لئے اور قرابت داروں کیلئے اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کیلئے ہے۔
٭ اور تم یتیم کے مال کے بھی قریب تک نہ جانا مگر ایسے طریقے سے جو یتیم کیلئے بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘
٭ اور یہ لوگ مسکین، یتیم اور قیدی کو اس کی( یعنی اللہ کی)محبت میں کھانا کھلاتے ہیں۔
٭ جو مال (بلا جنگ کے) اللہ نے اپنے رسول کو (دوسری) بستیوں کے (کافر) لوگوں سے دلوایا تو وہ اللہ اور اس کے رسول کا حق ہے اور (یہ مال حضور نبی اکرم اور آپ کے ) عزیزوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے۔
٭ یہ بات نہیں بلکہ تم یتیموں کی قدر دانی نہیں کرتے، اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو اور وارثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے۔ یتیموں کے بارے میں وہی فیصلہ کیا جائے،جو ان کی جان، ان کے مال، ان کے اخلاق، ان کی تعلیم و غیرہ تمام امور میں ان کیلئے بہتر ہو۔ ولی جس طرح اپنی اولاد سے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے ہمیشہ ان کی بہتری اور بھلائی مد نظر رکھتا ہے اور اس پر توجہ اور محنت سے عمل کرتا ہے وہی حق یتیموں کا بھی ہے۔ اس کے بعد اس طرف متوجہ کیا گیا کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ حسن سلوک صرف انہی کیلئے بہتری اور اصلاح کا موجب ہے، بلکہ یہ معاشرے کیلئے بھی باعث خیر و برکت ہو گاکیونکہ یہی یتیم بڑے ہو کر قوم کے افراد بنیں گے۔ اگر کم سنی میں ان کی تعلیم و تربیت کی کماحقہ نگہداشت نہ کی گئی تو کل یہ معاشرے اور قوم کیلئے ایک بوجھ بن جائیں گے۔ اگر ولی کی غفلت سے ان کے اموال ضائع ہو گئے تو لازماً بڑے ہو کر مفلسی کا شکار ہوں گے اور اس معاشرتی خرابیوں کا باعث بنیں گے۔