ججز کے الزامات، کیا تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن مناسب فورم ہے؟
ججز کے الزامات، کیا تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن مناسب فورم ہے؟
جمعرات 28 مارچ 2024 15:33
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات میں جسٹس منصور علی شاہ بھی موجود تھے۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے خفیہ اداروں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت، اہل خانہ، دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے اثرانداز ہونے اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے الزامات کے معاملے پر ہونے والے ملاقات میں ان کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس محسن اختر کیانی سمیت چھ ججز نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور دباؤ ڈال کر اثرانداز ہونے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کے لیے مناسب فورم کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کی تشکیل ہے۔ جس کے ٹی او آرز مشاورت سے تشکیل دیے جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم کی تجویز تھی کہ یہ کمیشن یک رکنی ہونا چاہیے اور چیف جسٹس نے اس سے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے تاہم یہ معاملہ کابینہ کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ غور و خوض اور بحث مباحثے کے بعد فیصلہ کرے گی کہ کمیشن کی تشکیل کیسے ہو گی۔‘
یہ معاملہ کابینہ میں کیوں بھیجا رہا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کی تشکیل کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے اور کابینہ وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتی ہے اس لیے یہ معاملہ کابینہ کو بھیجا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کی تحقیقات کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اسے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت سپریم کورٹ میں دیکھ لیا جاتا لیکن وہاں پر کچھ قانونی پیچیدگیاں آ سکتی تھیں یا پھر عدالتی مسائل سامنے آ سکتے تھے۔ اس لیے انکوائری کمیشن ہی بہتر فورم ہے۔‘
تحریک انصاف نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی یا اس پر مشتمل کمیشن کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حاضر سروس ججوں کے اوپر ایک ریٹائرڈ جج کا کمیشن بٹھا دیا جائے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں پی ٹی آئی کے رہنما شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’یہ ایک غلط فیصلہ ہے۔ ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس خط کی بنیاد پر سپریم کورٹ فل کورٹ یا لارجر بینچ تشکیل دیتی اور اپنی نگرانی میں پورا معاملہ سنتی اور فیصلہ دیتی۔‘
انھوں نے کہا کہ لیگل ٹیم سے مشاورت کے بعد ہم اس کمیشن کے حوالے سے اپنا قانونی لائحہ عمل تشکیل دیں گے۔
ماہر قانون سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ فل کورٹ کے دوسرے اجلاس سے قبل چیف جسٹس نے وزیراعظم کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے انکوائری کمیشن بنانے کی حامی کیسے بھر لی۔ ’اس ملک میں کمیشن نے کبھی کوئی کمال کیا ہے جو اب کرے گا؟ یہ ججوں کے الزامات کی تحقیقات کا مناسب فورم نہیں ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس میں عدلیہ میں مداخلت اور ہراساں کرنے کے الزامات ہیں لیکن گیند کلیم اللہ سے سلیم اللہ کی طرف پھینکی جا رہی ہے۔‘
کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کر کے سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل دے کر تحقیقات کرنی چاہیے تھیں۔ عدلیہ کی آزادی اور اس میں مداخلت روکنے کا یہ موقع ہاتھ لگ گیا تھا اور کچھ ججوں نے خطرہ مول لیا تھا تو سپریم کورٹ کے پاس موقع تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ لی جاتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’معاملہ انکوائری کمیشن میں بھیج کر اس موقع کو بھی ضائع کیا جا رہا ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ عدلیہ کی آزادی یقینی بنائی جا سکے گی۔‘