Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب، ’پہلی بار منڈی نہیں لگی‘

صوبے کی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کے انتخابات میں تمام  نشستوں پر پولنگ کی نوبت نہیں آئی (فوٹو: اے پی پی)
مارچ 2021 کے سینیٹ انتخابات سے پہلے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بیان دیا تھا کہ ’بلوچستان میں سینیٹ کی ایک نشست کی قیمت 50 سے 80 کروڑ روپے لگائی جا رہی ہے۔‘
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات عائد کیے گئے ہوں۔ صوبے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایوان بالا کے انتخابات تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
ٹھیکیداروں، سرمایہ داروں اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والوں کو پیسوں کے عوض کامیاب کرانے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
لیکن اس بار تمام امیدواروں کے بلا مقابلہ انتخاب کے بعد بلوچستان اسمبلی میں موجود جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ’بلوچستان میں پہلی مرتبہ سینیٹ انتخابات میں کوئی منڈی نہیں لگی۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں  نے بلا مقابلہ انتخاب کو اچھی پیشرفت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات اعتراضات سے خالی نہیں لیکن اس بار ماضی کی طرح سنگین الزامات نہیں لگے۔
بلوچستان میں اس بار کے سینیٹ انتخابات  ماضی سے کتنے مختلف ہیں، بلا مقابلہ منتخب ہونے کے باوجود کون سے اعتراضات اُٹھائے جا رہے ہیں؟ اور نومنتخب سینیٹرز کا سیاسی و خاندانی پس منظر کیا ہے یہ جاننے سے پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ بلا مقابلہ انتخابی عمل کیسے ہوا اور اس میں کس نے کردار ادا کیا؟
صوبائی الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان کے لیے مختص سینیٹ کی 11 خالی نشستوں پر انتخابات کے لیے آج دو اپریل کو پولنگ ہونا تھی جس کے لیے 36 افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تاہم ان میں سے باقی تمام امیدوار دستبردار یا ریٹائر ہو گئے اور صرف گیارہ امیدوار باقی رہ گئے۔
صوبائی الیکشن کمشنر محمد فرید آفریدی کے مطابق نشستیں اور امیدوار برابر رہ جانے کے بعد  تمام  گیارہ امیدواروں کو بلا مقابلہ قرار دے دیا گیا۔ ان میں سات جنرل نشستوں،دو ٹیکنوکریٹ و علماء اور دو خواتین کی نشستوں پر منتخب ہوئے ہیں۔
اس طرح صوبے کی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کے انتخابات میں  تمام  نشستوں پر پولنگ کی نوبت نہیں آئی۔
جنرل نشستوں پر منتخب ہونے والوں میں مسلم لیگ نواز کے آغا شاہ زیب درانی اور سیدال خان ناصر، پیپلز پارٹی کے سردار محمد عمر گورگیج، جمعیت علماء اسلام کے احمد خان خلجی، عوامی نیشنل پارٹی کے  ایمل ولی خان  اور  نیشنل پارٹی کے جان محمد بلیدی شامل ہیں۔ سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ بھی جنرل نشست پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں۔
ٹیکنوکریٹ و علماء کے لیے مختص دو نشستوں پر جمعیت علماء اسلام  کے مولانا عبدالواسع اور پیپلز پارٹی کے  شیخ بلال احمد خان مندوخیل  جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر ن لیگ کی راحت فائق جمالی اور پیپلز پارٹی کی حسنہ بانو  ایوان بالا کی ممبر بنی ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے بلا مقابلہ اور اتفاق رائے سے سینیٹرز کے انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’یہ دراصل جمہوری سوچ اور فکر کی فتح ہے۔ ایوان میں موجود تمام جماعتوں نے مثبت طرز سیاست کا کمال مظاہرہ کیا۔‘
انہوں نے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، جے یو آئی، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشن پارٹی ، اے این پی، جماعت اسلامی کو اس کا کریڈٹ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات کے دوران ہمیشہ خرید و فروخت کے الزامات لگتے رہے ہیں یہ ہمارے لیے باعث شرمندگی تھی یہ بات ہمیشہ دل کو چُبھتی تھی کہ اگر اس طرح کی پارلیمنٹ ہو تو یہ انتہائی دکھ اور پریشانی کی بات ہے۔‘

بلوچستان کے لیے مختص سینیٹ کی 11 خالی نشستوں پر انتخابات کے لیے آج پولنگ ہونا تھی (فوٹو: سینیٹ آف پاکستان)

اسلام آباد میں ن لیگ، جے یو آئی اور بی اے پی کے رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے بلوچستان میں سینیٹ کے انتخاابات کے دوران ماضی کے داغ کو صاف کیا ہے۔
’ہم نے تمام معاملات کو اتفاق رائے سے چلانے کے رول ماڈل کو اپنایا ہے اور اس سے پہلے سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کا انتخاب بھی بلا مقابلہ کیا۔ اسی طرح مستقبل میں بھی اتفاق رائے کو ترجیح دیں گے۔‘
جے یو آئی کے مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ’بلوچستان کی سیاسی قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا، ہم سیاست کو محبت کا نام دیتے ہیں اسے ذاتی دشمنی تک نہیں لے کر جانا چاہیے۔‘
ن لیگ کے صوبائی صدر شیخ جعفر خان مندو خیل نے کہا کہ ’ہم نے بلوچستان میں سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پیسہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ ہم نے سولو فلائٹ نہیں لی بلکہ اکثریت ہونے کے باوجود سب جماعتوں کو اکاموڈیٹ کیا تاکہ اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔‘

’پہلی بار سینیٹ کے انتخابات میں کوئی منڈی نہیں لگی‘

بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سینیئر رکن  صادق عمرانی کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ صرف وہ امیدوار کامیاب ہوئے جن کی نامزدگی سیاسی جماعتوں نے کی اور اتفاق رائے سے سب سینیٹر بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں سینیٹ کے انتخابات میں منڈی لگی رہتی تھی اور ووٹ فروخت ہوتے رہے جس کی وجہ سے بلوچستان کی ہر جگہ بدنامی  ہوتی تھی۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو زیادہ پیسہ دیتا تھا اسے ووٹ ملتا تھا۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کا یہ سلسلہ 1985 میں شروع ہوا تھا اس کے بعد حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صرف بلوچستان ہی کے ٹھیکیدار اور سرمایہ کار نہیں بلکہ دوسرے صوبوں کے دولت مند بھی پیسہ لگا کر سینیٹر بنتے رہے اور اس بہتی گنگا میں مذہبی، وفاق پرست  جماعتوں کے ساتھ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی ہاتھ دھوئے۔‘
شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں سینیٹ کی جنرل نشست پر کامیاب ہونے کے لیے باقی تمام صوبوں کے مقابلے میں کم ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے پیسوں کے بل بوتے پر سینیٹر بننے کے خواہشمند سرمایہ داریہاں ووٹوں کی خرید و فروخت  کو آسان سمجھتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس بار صورتحال مختلف ہے۔ پہلی بار تمام سینیٹرز اتفاق رائے سے بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں یہ اچھی پیشرفت ہے۔ چھوٹی جماعتیں بھی ایڈجسٹ  ہوئی ہیں۔ مقتدرہ نے بھی اپنے قریبی لوگوں کو منتخب کرایا۔ انوار الحق کاکڑ آزاد امیدوار تھے لیکن بلوچستان عوامی پارٹی نے ان کے حق میں اپنا امیدوار دستبردار کرایا۔‘
تجزیہ کار سید علی شاہ کا خیال ہے کہ اتفاق رائے پیدا کرنے میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی مرکزی قیادت کا اہم کردار رہا ہے ’ورنہ کم ووٹ رکھنے والی جماعتوں اور امیدواروں کا کامیاب ہونا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘
تجزیہ کار جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ بلا مقابلہ انتخاب کا فیصلہ بلوچستان کی سطح پر نہیں ہوا بلکہ اس میں طاقت کے مراکز کا اہم کردار ہے اور انہوں نے سیاسی جماعتوں سے فیصلہ منوایا ہے۔
’یہ بہتری آئی ہے کہ کئی ایسے امیدواروں کا راستہ روکا گیا ہے جن پر گمان تھا کہ وہ خرید و فروخت کریں گے۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں جلال نورزئی نے کہا کہ سینیٹ انتخابات خفیہ رائے دہی سے ہوتے ہیں اس میں بہت پیسہ چلتا ہے ۔ایم پی ایز کے لیے سینیٹ کا انتخاب کمانے کا بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس بار انتخاب نہ ہونے پر یقینا ًبلوچستان اسمبلی کے  بہت سے ارکان خوش نہیں ہوں گے۔‘
ان کے مطابق ’سیاسی جماعتوں اور ارکان اسمبلی کے درمیان اب بھی اعتماد کا فقدان ہے، یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کی وجہ سے کابینہ کی تشکیل  کو مؤخر کیا گیا کہ کہیں وزارتیں نہ ملنے کی صورت میں ارکان ادھر ادھر نہ ہوجائیں۔‘

سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ دوسری بار سینیٹر بنے ہیں (فوٹو: اے پی پی)

سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ اتفاق رائے اور بلا مقابلہ انتخاب کے باوجود بھی اعتراضات   سامنے آئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، با اثر خاندانوں کے لوگ اور ٹھیکیداروں کو لایا گیا۔ اسی طرح کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت تائید و تجویز کنندہ کی حیثیت سے دستخط کرنے کے پیسے لینے کی بھی اطلاعات ہیں۔‘
جلال نورزئی کے بقول جے یو آئی  کی طرف سے جنرل نشست پر باپ پارٹی کے ایک سرمایہ دار کو ٹکٹ دیا گیا۔ اس پر جمعیت علماء اسلام کے اندر بحث ہو رہی ہے اور اس فیصلے کو پارٹی کے لوگ بہت ہی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ن لیگ کے اندر بھی معاملات مشکوک تھے۔ سرمایہ دار شخص  کو سامنے لانے کی کوششیں ہورہی تھیں تاہم پارٹی کی مرکزی قیادت کی مداخلت کے بعد موقع نہیں ملا اور سیدال ناصر جیسا دیرینہ کارکن منتخب ہوگیا جو خوش آئندہ ہے۔‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق پہلے سمجھا جاتا تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی کے بارہ ارکان میں سے کوئی  بھی عالم  دین اور عام کارکن نہیں۔ کوئی نواب، کوئی سردار تو کوئی سرمایہ دار ہے۔ طلحہ محمود کے جانے کے بعد  جے یو آئی سینیٹ میں ایک بڑے سرمایہ کار احمد خان کو لے آئی ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ  وہ باپ پارٹی سے جے یو آئی میں کب شامل ہوئے۔‘
جلال نورزئی نے بتایا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے خواتین کی نشست پر دیرینہ اور عام کارکنوں کو نظر انداز کرکے با اثر گھرانوں کی خواتین کو منتخب کرایا ہے۔
’پیپلز پارٹی کی جانب سے خواتین کی نشست پر جو خاتون کامیاب ہوئی ہیں ان کا نام 15 مارچ کو پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری کی گئی امیدواروں  کی فہرست میں نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی نے پارٹی کے صوبائی صدر چنگیز جمالی پر سردار عمر گورگیج  کو ترجیح دی جن کا بیٹا اور دو قریبی رشتہ دار پہلے ہی بلوچستان اور قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔‘
جلال نورزئی خیبر پشتونخوا سے تعلق رکھنے والے ایمل ولی خان  کے بلوچستان سے انتخاب کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر اے این پی خود کو نظریاتی جماعت سمجھتی ہے تو یہ عمل اسے زیب نہیں دیتا۔‘
ان کے بقول آبادی کم ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت ہوتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے وقت  اور پھر عمران خان کے دور حکومت میں انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز سامنے آئی تاہم اس پر عمل نہیں ہوا۔
انہوں نے تجویز دی کہ خرید و فروخت کے الزامات سے بچنے کے لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونے چاہیے۔

بلوچستان سے نومنتخب سینیٹرز کا سیاسی و خاندانی پس منظر

آغا شاہ زیب درانی:

ن لیگ کے آغا شاہ شاہ زیب درانی کا تعلق خضدار سے ہے جو سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے برادر نسبتی ہیں۔ وہ پہلی بار 2017 میں اپنے بھائی آغا شہباز درانی کی وفات کے بعد خالی ہونے والی نشست پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔

عمران خان نے بیان دیا تھا کہ ’بلوچستان میں سینیٹ کی ایک نشست کی قیمت 50 سے 80 کروڑ روپے لگائی جا رہی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

نواب ثناء اللہ زہری کے  پارٹی چھوڑنے کے باوجود مشکل وقت میں ن لیگ کے ساتھ رہے۔ آغا شاہ شاہ زیب درانی شہباز شریف کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
سیدال خان ناصر:
سیدال ناصر پہلی بار سینیٹر بنے ہیں جو ن لیگ کے دیرینہ  کارکنوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی رہ چکے ہیں۔
عام انتخابات میں ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہو گئے تھے تاہم پارٹی نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دینے کی یقین دہانی پر منا لیا تھا۔ ابتدا میں ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے تھے بعد ازاں عدالت نے انہیں اجازت دے دی۔
ن لیگ کے صوبائی صدر کی جانب سے اپنے قریبی رشتہ دار کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب کرانے کی کوششیں کی جارہی تھیں تاہم پارٹی کی مرکزی قیادت کی مداخلت کے بعد ان کی کامیابی کی راہیں ہموار ہوئیں۔
سردار محمد عمر گورگیج:
سردار محمد عمر گورگیج 2008 سے 2013 تک چاغی سے قومی اسمبلی کے رکن اور پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی وزیر پوسٹل سروسز رہے۔ ان کے بیٹے صمد خان گورگیج بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ ان کے دو دیگر رشتہ دار عبید گورگیج اور ملک شاہ گورگیج بھی بلوچستان اور قومی اسمبلی کے ارکان ہیں۔
احمد خان خلجی:
احمد خان خلجی  کا تعلق کوئٹہ اور پشتونوں کے خلجی قبیلے سے ہے۔ وہ اورینج  ٹرین، میٹرو بس اور سی پیک  کے مغربی روٹ سمیت کئی بڑے منصوبوں پر کام کرنے والی ملک کی بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک ’زیڈ کے بی‘ کے مالک ہیں۔
وہ 2018 میں پہلی بار آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوکر بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے  تھے تاہم  اس بار وہ جے یو آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے ہیں۔
ایمل ولی خان:
ایمل ولی خان  کا تعلق خیبر پشتونخوا کے معروف قوم پرست سیاسی خاندان سے ہے۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کے صاحبزادے اور پارٹی کے خیبر پشتونخوا کے صدر ہیں۔ ایمل ولی نے آبائی صوبے سے انتخابات میں مسلسل شکست کے بعد بلوچستان سے قسمت آزمائی کی اور پیپلز پارٹی کی حمایت سے پہلی بار پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ایمل ولی عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کے صاحبزادے اور پارٹی کے خیبر پشتونخوا کے صدر ہیں (فوٹو: اے این پی)

جان محمد بلیدی:
جان محمد بلیدی کا تعلق ایران سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے  علاقے بلیدہ سے ہے۔ وہ  نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ پہلی بار سینیٹر بنے ہیں تاہم 2002 میں بلوچستان اسمبلی کے رکن اور 2013 میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت میں ترجمان رہ چکے ہیں۔
انوار الحق کاکڑ:
انوار الحق  کاکڑ اگست 2023 سے  فروری 2024 تک ملک کے سب سے طویل عرصہ تک نگراں وزیراعظم رہے۔ وہ دوسری بار سینیٹر بنے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نواب ثناء اللہ زہری کے دور میں بلوچستان حکومت کے ترجمان، عبدالقدوس بزنجو کے دورمیں مشیر برائے اطلاعات رہ چکے ہیں۔
انوار الحق کاکڑاس سے پہلے 2018 میں ن لیگ کے باغی ارکان کی حمایت سے آزاد حیثیت سے سینیٹر بن کر بلوچستان عوامی پارٹی کا حصہ بنے تھے۔ ان کا شمار بی اے پی کے بانیوں میں ہوتا ہے اس بار بھی آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں تاہم انہیں بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔
مولانا عبدالواسع:
جے یو آئی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالواسع  ٹیکنوکریٹک و علماء کی نشست پر پہلی بار سینیٹر بنے ہیں تاہم وہ اس سے پہلے ایک بار قومی اسمبلی اور چار بار بلوچستان  اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیر و صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔
2013 کی بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے۔ انہیں حالیہ انتخابات میں قلعہ سیف اللہ میں پہلی بار اپنے ہی جماعت کے باغی رہنماء مولوی نور اللہ  کے ہاتھوں  صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست ہوئی۔
 شیخ بلال احمد خان مندوخیل:
پیپلز پارٹی کے شیخ  بلال مندوخیل پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ وکالت کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی میں بطور اینکر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔
بلال مندوخیل  سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل کے چھوٹے بھائی، سابق سینیٹر سعید الحسن مندوخیل اور حالیہ نگراں کابینہ میں وزیر بلدیات  شیخ محمود الحسن کے بھتیجے ہیں۔ ان کے خاندان کے افراد سیاست اور بیوروکریسی میں  فعال رہے ہیں۔
ان کے دادا شیخ احمد خان بلوچستان کے پہلے ڈپٹی کمشنر جبکہ چچا یونس مندوخیل  بلوچستان کے چیف سیکریٹری اور وفاقی سیکریٹری رہ چکے ہیں۔
راحت فائق جمالی :
ن لیگ کے ٹکٹ پر پہلی بار سینیٹر بننے والی راحت جمالی  کا تعلق جعفرآباد کے معروف جمالی خاندان سے ہے۔ وہ سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی جان محمد  جمالی کی بہن، سابق صوبائی وزیر فائق جمالی کی اہلیہ ہیں۔
راحت جمالی 2013 میں پہلی بار بلوچستان اسمبلی کی رکن منتخب ہوکر صوبائی وزیر بنی تھیں۔ حالیہ انتخابات میں انہیں چند سو ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔
حسنہ بانو بلوچ:
حسنہ بانو نے کاغذات نامزدگی میں  اپنا تعلق بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے  بتایا ہے۔ وہ ایک غیر معروف اور  گھریلو خاتون بتائی جاتی ہے۔ پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا ہے اور سینیٹر منتخب ہوئی ہیں۔
حسنہ بانو پیپلز پارٹی حب کے صدر اور صدر آصف علی زرداری کے قریبی  ساتھی علی حسن  زہری کی بہن ہیں۔ علی حسن زہری کی اہلیہ ثمینہ ممتازبلوچستان عوامی پارٹی سے 2021 میں سینیٹر بنی تھیں۔

شیئر: