ایمل ولی خان نے بلوچستان سے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
ایمل ولی خان نے بلوچستان سے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اتوار 24 مارچ 2024 11:21
زین الدین احمد، -اردو نیوز، کوئٹہ
ایمل ولی خان ولی باغ چارسدہ میں مقیم ہیں۔ (فوٹو: ولی باغ فیس بک)
پاکستان بالخصوص بلوچستان میں ایوان بالا( سینیٹ) کے انتخابات گزشتہ کئی دہائیوں سے تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ووٹوں کی خرید و فروخت، سرمایہ داروں اور پیرا شوٹرز کو سامنے لانے کے الزامات بھی سامنے آئے۔
دو اپریل کو بلوچستان کی 11 نشستوں سمیت چاروں صوبوں کی 48 خالی نشستوں پر انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں بلوچستان میں ایک بار پھر سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیداوروں پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس بار بلوچستان سے سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سیاسی شخصیت بھی تنقید کی زد میں ہے جو چار نسلوں سے سیاست میں ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان بلوچستان سے سینیٹ کے جنرل نشست پر امیدوار ہیں۔ انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے تاہم ان پر بلوچستان سے تعلق نہ ہونے کی بناء پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔
سینیٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت متعین اہلیت کے ساتھ ساتھ کم از کم 30 سال عمر اور اس صوبے میں بطور ووٹر رجسٹرڈ ہونا لازم ہے جہاں سے وہ انتخاب لڑنا چاہتا ہے۔
ایمل ولی خان نے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کے لیے چند دن قبل ہی اپنے شناختی کارڈ کا پتہ ولی باغ چارسدہ سے تبدیل کرکے کاسی قلعہ ارباب ہاؤس خدائے داد روڈ کوئٹہ درج کرایا ہے۔ ارباب ہاؤس اے این پی کے سابق صوبائی صدر ارباب ظاہر کاسی اور ان کے صاحبزادے سینیٹر ارباب عمر فاروق کاسی کی رہائش گاہ ہے۔
اے این پی سمیت خیبر پشتونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پشاور کے صحافی و تجزیہ کار لحاظ علی کہتے ہیں کہ ایمل ولی خان نے شناختی کارڈ کا پتہ تبدیل کر کے قانونی جواز تو پورا کر دیا ہے لیکن ان کا اقدام آئینی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں اے این پی کے رہنما اس عمل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں اب خود یہی کام کر رہے ہیں۔ وہ چھوٹے صوبوں کی آواز بنتے تھے اب خود وہ ایک چھوٹے صوبے کا حق ما رہے ہیں۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ماضی میں بھی بلوچستان سے دوسرے صوبوں کے لوگ سینیٹ کے انتخابات میں منتخب ہو چکے ہیں یا حصہ لے چکے ہیں۔ آصف زرداری یوسف بلوچ کو لے کر آئے اسی طرح ظفراللہ جمالی جب وزیراعلیٰ تھے تو کراچی کے ایک مشہور تاجر کی سینٹ انتخاب میں حمایت کی۔
انہوں نے بتایا کہ مارچ 2021 کے سینیٹ انتخابات میں امیدوارکاروباری شخصیت عبدالقادر سے متعلق تنازع رہا کہ ان کا تعلق بلوچستان سے نہیں۔ اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے اعتراض اٹھایا تو عمران خان نے ان سے ٹکٹ واپس لیا تاہم بعد میں آزاد حیثیت میں پی ٹی آئی نے ہی ان کی حمایت کی اور وہ منتخب ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق بلوچستان میں سینیٹ کے انتخابات میں نوے کی دہائی سے تنازعات اٹھتے رہے ہیں۔ پیرا شوٹرز منتخب ہونے کے ساتھ ساتھ پیسوں کے بل بوتے پر لوگ کامیاب ہوتے رہے ہیں تاہم شہزادہ ذوالفقار ایمل ولی خان کے بلوچستان سے سینیٹ کے انتخاب میں حصہ لینے کو کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے۔
ان کا کہنا ہے کہ اخلاقی طور پر تو اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ایمل ولی کو بلوچستان سے اپنے کسی کارکن کو نامزد کرنا چاہیے تھا مگر سیاسی طور پر یہ مثبت بات ہے کہ ان کی جماعت کی بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی موجود ہے اور ان کے انتخاب کے عمل میں پیسوں کا لین دین شامل نہیں۔ وہ سیاسی بنیادوں پر ایک بڑی سیاسی جماعت کی حمایت سے میدان میں اترے ہیں۔
بلوچستان سے سینیٹ کی 11 خالی نشستوں میں سے سات جنرل، دو خواتین اور دو ٹیکنوکریٹس کی ہیں۔ ایمل ولی جنرل نشست پر امیدوار ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کی 65 میں سے چار نشستیں خالی ہیں۔ 61 ارکان اس انتخاب میں حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔ اس طرح بلوچستان میں ایک جنرل نشست پر کامیابی کے لیے سات سے آٹھ ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ اے این پی کی بلوچستان اسمبلی میں صرف دو نشستیں ہیں۔
اے این پی کے پہلے تین ارکان بلوچستان اسمبلی کے تھے۔ چند دن قبل سپریم کورٹ کی جانب سے پی بی 50 پر انجینیئر زمرک خان اچکزئی کی کامیابی کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کرانے کے حکم کے بعد ا ے این پی کی بلوچستان اسمبلی میں نشستوں کی تعداد کم ہو گئی۔
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق صرف دو ایم پی ایز کے ساتھ اے این پی کے لیے سینیٹ کی کوئی نشست جیتنا نا ممکن تھی۔ کامیابی کے لیے پیپلز پارٹی کو انہیں پانچ سے چھ ووٹ دینا ہوں گے۔ نیشنل پارٹی کے جان بلیدی کے ساتھ ساتھ اے این پی کے ایمل ولی کی حمایت کر کے پیپلز پارٹی نے انہیں سینیٹ میں جانے کا موقع فراہم کیا ہے اس فیصلے کے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ریٹائرڈ سینیٹر نصیب اللہ بازئی نے ایمل ولی کے بلوچستان سے انتخاب لڑنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلوچستان کا حق ہے اس پر اے این پی کو صوبے سے ہی اپنے کسی رہنما یا کارکن کو نامزد کرنا چاہیے تھا۔
اگر ایمل ولی خان بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوتے ہیں تو وہ حالیہ عرصے میں خیبر پختونخوا کی دوسری سیاسی شخصیت ہوں گے جو بلوچستان کے کوٹے سے پارلیمنٹ تک پہنچیں گے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے شکست کھا گئے تھے تاہم وہ بلوچستان کے ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے۔
مولانا فضل الرحمان کے بلوچستان سے انتخاب لڑنے پر ان کے مد مقابل اے این پی کے امیدوار رشید ناصر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ وہ اسے بلوچستان کے عوام کے ساتھ ظلم قرار دیتے تھے۔
ایمل ولی کو بلوچستان سے انتخاب لڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے تجزیہ کار لحاظ علی کی رائے ہے کہ 2018 میں انتخابی سیاست میں پہلی بار حصہ لینے سے لے کر اب تک ایمل ولی کی خواہش اور بھر پور کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے پارلیمنٹ تک پہنچے تاہم 2018 کے عام انتخابات کے بعد 2022 میں عمران خان کے خلاف ضمنی انتخاب اور پھر 2024 کے عام انتخابات میں تیسری بار شکست ہوئی۔
1986 میں بننے والی عوامی نیشنل پارٹی کا گڑھ ہمیشہ سے خیبر پختونخوا رہا ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ اے این پی کی خیبر پختونخوا کے مقابلے میں بلوچستان اسمبلی میں زیادہ نشستیں ہیں۔
لحاظ علی کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2008 کے بعد کسی بھی انتخاب میں اے این پی کوئی اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔ فروری 2014 کے انتخابات میں پورے خیبر پشتونخوا سے انہیں صرف ایک صوبائی اسمبلی کی نشست ملی۔
ان کے بقول پی ٹی آئی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ اے این پی مستقبل قریب میں بھی خیبر پختونخوا کی سیاست میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ ایمل ولی اپنے آبائی ضلعے میں حلقے کی سیاست میں ناکام رہے ہیں مسلسل انتخابی ناکامیوں کے بعد شاید اے این پی سمجھتی ہے کہ ایمل ولی کی سیاست داؤ پر لگی ہوئی ہے اگر وہ پارلیمنٹ میں نہیں جاتے تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی۔
لحاظ علی کے بقول خیبر پختونخوا میں مسلسل شکست کے بعد ایمل ولی نے بلوچستان سے سینیٹ انتخاب لڑنے کو اپنے لیے سنہری موقع سمجھا اس لیے انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی پیروی کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ایمل ولی پارلیمنٹ میں جاکر خود کو قومی سیاست میں مزید نمایاں کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ انہیں سنجیدگی سے لیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ایمل ولی خان کو امیدوار نامزد کرنا اے این پی کی صوبائی قیادت اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کا فیصلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اے این پی بلوچستان کی خواہش تھی کہ ایمل ولی خان سینیٹ میں پشتونوں کی آواز بنیں کیونکہ وہ صرف اے این پی نہیں بلکہ پورے پشتون قوم کے نمائندے ہیں۔ وہ سینیٹ میں قوم کا بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔
اصغر خان اچکزئی کے مطابق اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان اور ایمل ولی خان پہلے اے این پی بلوچستان کے فیصلے سے متفق نہیں تھے۔ صدر آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور اے این پی بلوچستان کی خواہش اور مطالبے پر ایمل ولی خان نے حامی بھری۔