انھوں نے 1976 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کیا جس کے بعد 1978 میں مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا رکن بننے سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔ 1982 میں وفاقی کونسل کے رکن اور 1983 میں سید فخرامام کوشکست دے کرچیئرمین ضلع کونسل ملتان منتخب ہوئے۔
یوسف رضا گیلانی نے 1985 میں غیرجماعتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے محمد خان جونیجو کی کابینہ میں ہاؤسنگ و تعمیرات اور ریلوے کی وزارت سنبھالی۔
1988 میں یوسف رضا گیلانی نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ملتان سے عام انتخابات میں نواز شریف کو شکست دی۔
یوسف رضا گیلانی 1990 میں تیسری اور1993 میں چوتھی بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1993 میں بے نظیر حکومت میں یوسف رضا گیلانی سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر فائز رہے۔
وہ فروری 1997 میں ہونے والے انتخابات میں ناکام رہے۔
یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی فرمائش پر قومی اسمبلی ہال کی قرآنی آیات سے سجی چھت کی تزئین و آرائش کروائی تھی۔
یوسف رضا گیلانی نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں قید بھی کاٹی۔ 2004 میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں 300 ملازمین کو غیر قانونی طور پر بھرتی کرنے کے الزام میں انہیں 10 سال قید بامشقت کی سزا ہوئی جو کہ 2006 میں عدالتی حکم پر رہائی میں تبدیل ہوئی۔
دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم اور یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ زرداری ہاؤس میں کئی روز کے اجلاسوں کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا اور وہ پاکستان کے 18 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔
وہ چار سال ایک ماہ اور ایک دن تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ انہیں پاکستان کے طویل مدت تک وزیراعظم رہنے کااعزاز حاصل ہے۔
2012 میں یوسف رضا گیلانی کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے لیے سوئس حکومت کوخط نہ لکھنے پرسپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں چند سیکنڈ کی سزا سنائی اور وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہو گئے۔
وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران قومی اسمبلی اجلاسوں میں سب سے زیادہ حاضر رہنے والے وزیراعظم بھی ہیں۔
2013 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ان کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو ملتان سے اغوا کر لیا گیا جو تین برس بعد افغانستان میں ایک فوجی کارروائی میں بازیاب ہوئے۔ بیٹے کے اغوا اور عدالتی نااہلی نے یوسف رضا گیلانی کی سیاست کو خاصا متاثر کیا۔
نااہلی کی مدت ختم ہونے پر انہوں نے 2018 کے الیکشن میں ملتان سے حصہ لیا تاہم تحریک انصاف کے محمد ابراہیم خان کے مقابلے میں انہیں شکست ہوئی۔
2021 میں سینیٹ انتخابات میں حکمران جماعت کے امیدوار اور وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو شکست دینے کے بعد یوسف رضا گیلانی پہلی بار ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہوئے اور حزبِ اختلاف نے مشترکہ طور پر انہیں چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا۔
اسلام آباد کی نشست پر ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کو عددی برتری حاصل تھی لیکن یوسف رضا گیلانی نے عبدالحفیظ شیخ کو پانچ ووٹوں سے شکست دے دی تھی۔
یوسف رضا گیلانی کی اس جیت نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کر دیا تھا جبکہ حفیظ شیخ وزارت خزانہ سے مستعفی ہو کر تحریک انصاف کی حکومت سے باہر ہو گئے تھے۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں انھیں صادق سنجرانی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
آٹھ فروری کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی اور ان کے دو صاحبزادے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت رکن قومی اسمبلی حلف اٹھایا اور سینیٹ کی سیٹ خالی کر دی۔
وزارت عظمیٰ اور صدارتی انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کیا اور سینیٹ کی سیٹ خالی کر دی۔ بعد ازاں اسی سیٹ پر دوبارہ الیکشن میں حصہ لیا اور با آسانی کامیاب ہو کر سینیٹر بن گئے اور قومی اسمبلی کی نشست خالی کر دی۔