Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی جسم میں وہ تبدیلیاں جو بظاہر ’بے ضرر‘ دکھائی دیتی ہیں

سائنس دان بھی طویل عرصہ سے یہ سوچتے رہے ہیں کہ چہل قدمی کے دوران بازوؤں کی حرکت بے مقصد ہے۔ (ہاؤڈی ہیلتھ)
انسانی جسم کی ہر حرکت کی ایک سائنس ہے۔ وہ سائنس جسے ہم اپنے روزمرہ معمولات میں عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ہمارے ذہنوں میں سوال ابھرتے ہیں مگر ہم کچھ ’مزید اہم سوالات‘ کے جواب پانے کی جستجو میں اس جانب اپنی توجہ مرکوز نہیں کرتے۔
ہم جمائی لیتے ہیں تو کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا کہ آپ کے ساتھ موجود دوست احباب میں سے بھی کچھ جمائی لینے لگتے ہیں یا آپ سرے سے جمائی لیتے ہی کیوں ہیں؟ ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ تھکاوٹ کی وجہ سے۔
چلیے جمائی لینے کی سائنس پر مزید بات کرنے سے قبل آپ نے بارہا دیکھا ہو گا کہ ہم چلتے ہوئے اپنے بازوؤں کو بے اختیار حرکت دے رہے ہوتے ہیں یا رات کو سوتے میں آپ نے کبھی محسوس کیا ہو کہ آپ کو جھٹکا لگا ہو مگر آپ نظر انداز کر کے دوبارہ سو گئے ہوں جس کے باعث ہم اپنے ساتھ سونے والوں کی نیند میں خلل پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں؟ یہ وہ چھوٹے چھوٹے سوال ہیں جن کے جواب پاکر آپ یقیناً حیران ہوں گے اور ان افعال کی افادیت اور کچھ کا مضحکہ خیز ہونا آپ کے لیے یقیناً دلچسپی کا موضوع ہو گا۔

پیدل چلتے ہوئے بازوؤں کی حرکت

ٹیکنالوجی کے موجودہ عہد میں گھنٹوں کاؤچ پر دراز ہو کر ٹیلی ویژن دیکھنا، ویڈیو گیمز کھیلنا یا دوستوں کو ٹیکسٹ میسجز کرنا نوجوانوں کا ایک عام معمول بن چکا ہے۔ ماہرین مگر یہ کہتے ہیں کہ ایک صحت مند طرز زندگی کے لیے صبح اٹھنے کے علاوہ چہل قدمی اور ہلکی ورزش کرنا بے حد اہم ہے۔
صرف چہل قدمی کی ہی بات کر لیجیے جس سے نہ صرف آپ کے دل کی دھڑکن بہتر ہوتی ہے بلکہ آپ کے مزاج پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آپ جب چہل قدمی کرتے ہیں تو آپ کی ٹانگوں کی اچھی ورزش ہو جاتی ہے لیکن آپ نے کبھی یہ ادراک کیا کہ آپ کے جسم کا ایک اور حصہ بھی ورزش کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لیے آپ کسی قسم کی کوئی اضافی کوشش نہیں کرتے؟ جی، یہ ایک حقیقت ہے۔
آپ ایسا کیجیے، حالیہ موسم بہار کی کسی خوشگوار صبح مختصر چہل قدمی پر جائیں اور یہ دیکھیے کہ آپ جب چہل قدمی کر رہے ہوں گے تو آپ کے بازو بھی حرکت میں ہوں گے۔ بہت سے لوگ اس بارے میں نہیں سوچتے کہ وہ جب چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے بازو حرکت میں ہوتے ہی کیوں ہے؟
سائنس دان بھی طویل عرصہ سے یہ سوچتے رہے ہیں کہ چہل قدمی کے دوران بازوؤں کی حرکت بے مقصد ہے مگر حالیہ ایک تحقیق میں ماہرین بالآخر یہ دریافت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ چہل قدمی کے دوران بازوؤں کی حرکت بے مقصد نہیں۔ جسم کے بہت سے دیگر افعال کی طرح یہ اس لیے حرکت کرتے ہیں کیوںکہ یہ چہل قدمی کرنے کا بہت زیادہ فطری اور مناسب طریقہ ہے۔ سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو چہل قدمی کرتے یا پیدل چلتے ہوئے بازوؤں کی حرکت سے آپ کے چلنے پر کم توانائی خرچ ہوتی ہے۔

سائنس دان  یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دماغ میں ایسا کیا ہوتا ہے جس سے ہم جمائی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ (فوٹو: فری پک)

جمائی لینے کی سائنس

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر طبی ماہرین گذشتہ کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دماغ میں ایسا کیا ہوتا ہے جس سے ہم جمائی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ برطانوی نوٹنگھم یونیورسٹی کے ماہرین پر اپنی تحقیق کے دوران یہ منکشف ہوا کہ جمائی لینے کا عمل دراصل دماغ کے اس حصے سے شروع ہوتا ہے جو جسم کے اعصابی افعال کو منتظم کرتا ہے مگر ایک شخص جب جمائی لیتا ہے تو اس کے ساتھ موجود اس کے دوست احباب بھی جمائی لینے لگتے ہیں۔
اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدی جمائی کا راز سمجھ میں آ جانے سے اس طرح کی دیگر بہت سی خرابیوں کے بارے میں جاننے میں مدد حاصل ہو سکتی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدی جمائی گونج کے عمل جیسی ہی ہے جس میں انسان خودکار طور پر ہی کسی دوسرے کی آواز یا عمل کی نقل کرنے لگتا ہے۔

آنکھ جھپکنا

یہ ہمارے روز مرہ کے معمول کا حصہ ہے۔ ایک جدید طبی تحقیق کے مطابق ہم روزانہ 14،400 سے 19،200 بار آنکھیں جھپکتے ہیں مگر کم ہی یہ غور کرتے ہیں کہ دن میں ہزارہا بار کیے جانے والے اس عمل کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ آنکھیں جھپکنا بینائی کے لیے مفید ہے مگر خیال رہے کہ اعتدال سے زیادہ آنکھیں جھپکنے کے طبی نقصانات بھی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ آنکھیں جھپکنے سے یہ نم رہتی ہیں اور آپ کی آنکھوں سے گندگی صاف ہو جاتی ہے اور اس سے آپ کی آنکھوں کو آکسیجن بھی ملتی رہتی ہے۔ یوں آپ آنکھوں کے انفیکشن سے محفوظ رہتے ہیں جب کہ آپ کے دماغ کو بھی سکون حاصل ہوتا ہے جب کہ آپ اپنے کام پر بہتر طور پر توجہ مرکوز کر پاتے ہیں۔
آپ اگر آنکھیں نہیں جھپکتے تو آپ کی آنکھ کا قرنیہ سوجن کا شکار ہو سکتا ہے لیکن رات سونے کے بعد یہ دوبارہ درست طور پر کام کرنے لگے گا۔

ایک جدید طبی تحقیق کے مطابق ہم روزانہ 14،400 سے 19،200 بار آنکھیں جھپکتے ہیں۔ (فوٹو: اڈوب سٹاک)

سوال مگر یہ ہے کہ آنکھیں کم جھپکنے کی وجہ کیا ہے تو اس کا ذمہ دار کمپیوٹر ہے کیوںکہ آپ جب کمپیوٹر استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو عام معمول سے 66 فی صد کم آنکھیں جھپکتے ہیں۔ اس صورت حال میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ ہر 20 منٹ کے بعد 20 سکینڈ کا وقفہ لیں جس سے آپ اس مشکل پر قابو پانے میں کامیاب رہیں گے۔

سوتے میں جھٹکے لگنا

کیا آپ جانتے ہیں کہ لوگوں کی اکثریت نے سوتے میں اچانک اور مختصر جھٹکے محسوس کیے ہوں گے اور یقیناً ایسا نیند کے پہلے مرحلے میں محسوس کیا ہو گا جب انسان بیداری اور گہری نیند کے درمیان ہوتا ہے۔
ہیپنک جرک کے نام سے معروف ان جھٹکوں کی بسا اوقات کوئی وجہ بیان نہیں کی جا سکتی لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کیوںکہ ہو سکتا ہے یہ آپ کے جسم میں پھل پھول رہی کسی بیماری کی علامت ہوں۔ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ اس صورت حال کا سامنا ہر صنف اور عمر کے 70 فی صد لوگ کرتے ہیں۔
جسم کو لگنے والے یہ جھٹکے اس قدر ہلکے ہو سکتے ہیں کہ ممکن ہے آپ سرے سے محسوس ہی نہ کریں اور بسا اوقات ان کی شدت کے باعث آپ نیند سے بیدار ہو سکتے ہیں۔ نیند میں لگنے والے ان جھٹکوں کی براہ راست وجہ کے بارے میں تو کچھ معلوم نہیں لیکن کچھ ایسے عوامل ضرور ہیں جو آپ کی نیند میں اس خلل کی وجہ بنتے ہیں جن کے حوالے سے آپ اپنے طبی ماہر سے مشورہ کر سکتے ہیں۔

نہانے یا ہاتھ دھونے کے بعد انگلیوں پر نمودار ہونے والی جھریاں

آپ جب زیادہ دیر پانی میں رہتے ہیں تو آپ کے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں پر جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔ آپ کچھ دیر اس بارے میں سوچتے ہیں اور دوبارہ اپنے دیگر مشغولات میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اس دوران جھریاں غائب ہو جاتی ہیں۔
طبی ماہرین گذشتہ کئی دہائیوں سے اس معمے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں زیادہ توجہ اس نکتے پر مرکوز ہوئی ہے کہ اس تبدیلی کا کیا کوئی فائدہ بھی ہے یا یہ ہماری صحت سے متعلق پیش بینی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے؟

بسا اوقات جھٹکوں کی شدت کے باعث آپ نیند سے بیدار ہو سکتے ہیں۔ (ہیلتھ شارٹس)

بہت سی تحقیقی کوششوں سے یہ تو ثابت ہو چکا ہے کہ پانی میں اوسطاً نصف گھنٹہ گزارنے کے بعد یہ جھریاں انگلیوں پر نمایاں ہو جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی جلد کی بیرونی تہہ اوسموسس کے ذریعے پانی اندر آنے کی وجہ سے پھول جاتی ہے لیکن ماضی میں سائنس دان اسے ایک سنجیدہ معاملہ خیال کرتے رہے ہیں کیوںکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جسے دماغ براہ راست منتظم کر رہا ہوتا ہے اور یہ انسانی جسم کے لیے فائدے مند ثابت ہو سکتا ہے لیکن یہ پہیلی آج تک نہیں سلجھ سکی اور سائنس دان اس حوالے سے تجربات کر رہے ہیں اور وہ حیران کن نتائج حاصل کر رہے ہیں۔

شیئر: