’شہابیہ کا باقی حصہ 2.75 ٹن ہے اور اسے ریاض کے میوزیم میں رکھا گیا ہے‘ ( فوٹو: العربیہ)
خلا سے سعودی عرب کی سرزمین پرگرنے والے فلکی اجرام کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف علاقوں میں گرنے والے شہابیوں میں سے بعض لوہے کے، بعض پتھر اور لوہے اوربعض خالص پتھرکے شہابئے ہیں۔
العربیہ کے مطابق جیولوجیکل سروے نے 2012ء اور 2019 کے درمیان سعودی ریگستان میں 85 شہابیوں کی دریافت کی ہے۔
ان میں سے دو شہابیوں میں سے ایک ربع الخالی میں اور دوسرا وادی الدواسر کے الخماسین میں گرا تھا۔
شہابیوں کی دریافت جیولوجیکل سروے اتھارٹی نے سوئس یونیورسٹی کے ماہرین کے تعاون سے ہے۔
وبار شہابیہ
یہ شہابیہ ابو حدیدہ کے مقام پر پایاگیا تھا جہاں کے مکینوں نے اس کے ارد گرد بکھرے ہوئے لوہے کے ٹکڑے بھی دیکھے۔
برطانوی مستشرق جان فلپی نے اسے دریافت کیا تھا۔
شہابیہ کا باقی حصہ 2.75 ٹن ہے اور اسے ریاض کے میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
الخماسین شہابیہ
وادی الدواسرمیں الخماسین نامی شہابیہ دو پتھروں پر مشتمل ہے، ایک کا وزن 1.2 ٹن ہے اور یہ سب سے بڑا ٹکڑا سمجھا جاتا ہے۔
اس کی دریافت وادی الدواسر میں کنگ سعود یونیورسٹی کے ماہرین نے 1970ء کی دہائی کے آغاز میں کی تھی۔
ارضیات کے پروفیسر اور سعودی آرامکو کے سابق مشیر ڈاکٹر عبدالعزیز بن لعبون بتاتے ہیں کہ ’مطالعات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہر سال 10 ہزار سے زیادہ شہابیوں کا ملبہ زمین پر گرتا ہے‘۔
’ان میں سے کچھ زمین کی گہرائیوں میں غائب ہو جاتے ہیں، کچھ سمندروں میں گرتے ہیں‘۔
بن لعبون نے نشاندہی کی ہےکہ ’یہ ٹکڑے ہمیں کائنات کا مزید مطالعہ کرنے اور اس کے اسرار و رموز سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں‘۔