Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل غزہ میں ممکنہ طور پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے، امریکی عہدیدار

امریکی عہدیداروں نے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو اسرائیل کی غزہ میں کارروائیوں پر اپنی رائے دی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک مراسلے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چند اعلٰی عہدیداروں نے سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو آگاہ کیا کہ انہیں اسرائیل کی جانب سے دی گئی یقین دہانی ’قابل اعتبار اور قابل اعتماد‘ نہیں لگتی کہ وہ امریکی ہتھیاروں کو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت استعمال کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فروری میں صدر جو بائیدن کی جانب سے جاری نیشنل سکیورٹی میموریڈم کے تحت انٹونی بلنکن کو 8 مئی تک کانگریس کو رپورٹ کرنا ہو گا کہ کیا وہ اسرائیل کی  یقین دہانی کو قابل اعتبارسمجھتے ہیں کہ وہ امریکی ہتھیاروں کو امریکی یا انٹرنیشنل قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہیں استعمال کر رہا۔
24 مارچ تک محکمہ خارجہ کے کم از کم سات اہلکاروں نے اپنی تجاویز سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو ابتدائی مراسلے میں بھیجی تھیں۔
اس مراسلے میں محکمہ خارجہ کے عہدیداروں کی جانب سے دی گئی تجاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارے کے اندر اسرائیل کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں کہ وہ ممکنہ طور پر غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف وزیوں کا مرتکب ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے چار بیوروز نے مشترکہ تجاویز جمع کروائی ہیں جن میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا گیا ہے۔
ان میں  بیورو برائے جمہوریت انسانی حقوق اور لیبر، بیورو برائے آبادی مہاجرین اور نقل مکانی، بیورو برائے گلوبل کریمنل جسٹس اور بیورو برائے انٹرنیشنل آرگنائیزیشن افیئرز شامل ہیں۔
ان چار بیوروز کی جانب سے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی یقین دہانیاں ’نہ قابل اعتبار ہیں اور نہ ہی قابل اعتماد۔‘

امریکی عہدیداروں کے مطابق اسرائیل نے محفوظ مقامات اور سویلین انفراسٹرکچر پر بار بار حملے کیے۔ فوٹو: اے ایف پی

رپورٹ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے آٹھ ایسی مثالیں دی گئی ہیں جن کے متعلق امریکی عہدیداروں نے کہا کہ انہوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کی ممکنہ خلاف ورزیوں سے متعلق ’سنگین سوالوں‘ کو جنم دیا ہے۔
رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے محفوظ مقامات اور سویلین انفراسٹراکچر پر بار بار حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’عسکری مفاد کے لیے غیر شعوری طور پر اعلیٰ سطح کا شہری نقصان پہنچایا گیا‘، خلاف ورزیوں کی تحقیقات یا شہریوں کو نقصان پہنچانے کے مرتکب افراد کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے معمولی اقدامات کیے گئے، اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو اس رفتار سے قتل کیا گیا جس کی مثال نہیں ملتی۔
ان چار بیوروز نے اپنے جائزے میں ایسے 11 واقعات کا ذکر کیا ہے جب اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر انسانی امداد کو محدود کیا۔
دوسری جانب بیورو برائے سیاسی و عسکری افیئرز کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے میں سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو خبردار کیا گیا ہے کہ امریکی ہتھیاروں کی فراہمی معطل کرنے سے اسرائیل کی اپنی فضائی حدود سے باہر موجود ممکنہ خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت محدود ہو جائے گی۔
بیورو برائے سیاسی و عسکری افیئرز امریکہ کی عسکری امداد اور ہتھیاروں کی ترسیل جیسے معاملات کا جائزہ لیتا ہے۔
بیورو نے مزید کہا کہ امریکی ہتھیاروں کی فروخت معطل کرنے سے ایران اور اس سے جڑے ملیشیا گروپس کو ’اشتعال انگیزی‘ کی دعوت دینا ہے۔

امریکی عہدیداروں نے مراسلے میں اسرائیلی یقین دہانیوں کو قابل اعتبار قرار نہیں دیا۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک اور امریکی عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیل میں امریکی سفیر جیک لیو اور یہود دشمنی پر نظر اور مقابلہ کرنے کے لیے خصوصی ایلچی کے دفتر سے بھیجے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی یقین دہانیوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ قابل اعتماد اور قابل یقین ہیں۔
عہدیدار کے مطابق محکمہ خارجہ کے لیگل بیورو نے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ مؤقف نہیں اپنایا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ردعمل میں کہا کہ ادارہ لیک شدید دستاویزات پر تبصرہ نہیں کرتا۔

شیئر: