Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں 110 سی سی موٹر سائیکل کی چوری یا چھینے جانے کا رجحان کیوں بڑھا ہے؟

کراچی میں رواں سال کے ابتدائی چار ماہ میں شہریوں سے 19 ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری کی گئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران موٹرسائیکلوں کی چوری اور چھیننے جانے کی وارداتوں نے شہریوں کو پریشان کر دیا ہے۔ وہ اپنے ہی شہر میں خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے ہیں جب کہ ان کی چوری یا چھینی گئی موٹر سائیکل شاذ و نادر ہی بازیاب ہو پاتی ہے۔
کراچی پولیس کے مطابق موٹر سائیکلوں کی چوری میں ملوث گروہ کراچی سے موٹر سائیکلیں چوری کرنے یا چھیننے کے بعد انہیں اندرون سندھ سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں فروخت کر دیتا ہے۔
سینٹرل پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ میں شہریوں سے 19 ہزار سے زائد موٹر سائیکلیں چھینی یا چوری کی گئی ہیں۔
سی پی ایل سی کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں سوزوکی 110 موٹر سائیکل کے چھینے یا چوری کرنے کے واقعات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جنوری 2024 سے اپریل 2024 تک چار سو 63 موٹر سائیکلیں چوری یا چھینی گئی ہیں۔
سوزوکی 110 سی سی موٹر سائیکل کی چوری یا چھینے جانے کا رجحان کیوں بڑھا ہے؟
چیئرمین ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل سمبلرز ( اے پی ایم اے) محمد صابر شیخ کے مطابق سوزوکی 110 سی سی موٹر سائیکل کی چوری یا چھینے جانے کی کئی وجوہات ہیں۔ 110 سی سی موٹر سائیکل چلنے میں بہتر ہے، اور یہ موٹر سائیکل کچے پکے دونوں علاقوں میں چلنے میں اچھی ہے۔ کراچی سے چھینی جانے والی موٹر سائیکلیں ملک کے دیگر صوبوں میں بھیج دی جاتی ہیں جہاں لوگ انہیں بنا نمبرز کے بھی استعمال کر لیتے ہیں۔
محمد صابر کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں کراچی سے مجموعی طور پر تقریباً 19 کروڑ 40 لاکھ روپے مالیت کی موٹر سائیکلیں چوری یا چھینی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس موٹر سائیکل کی قیمت نسبتاً زیادہ ہے، اور اس کے سپیئر پارٹس بھی مہنگے ہیں۔ موٹر سائیکل چوری کرنے والے اس موٹر سائیکل کو چوری کرنے یا چھیننے کے بعد اس کے سپیئر پارٹس کھول کر فروخت کرنے میں بھی ملوث ہیں۔‘
ایس ایس پی کراچی ضلع غربی حفیظ الرحمان بگٹی کے مطابق کراچی شہر میں موٹر سائیکل کی چوری اور ان کے چھینے جانے کی وارداتوں میں ملوث ملزم ان کے پرزے کھول کر کباڑ مارکیٹ میں فروخت کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’رواں ماہ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون میں پولیس نے سنیپ چیکنگ کے دوران ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جو چوری کی موٹر سائیکل کا سامان کھول کر فروخت کرنے کے لیے کباڑ مارکیٹ لے جا رہا تھا۔‘

پولیس کے مطابق گرفتار ملزموں کے قبضے سے موٹر سائیکل کے مختلف پارٹس اور چیسس برآمد ہوئے ہیں (فوٹو: اے پی پی)

پولیس نے مزید بتایا کہ ’ملزم حفیظ ولد اظہار الحق کی نشاندہی پر چوری شدہ سامان کی خریداری کرنے والے کباڑی ارسلان ولد انجمن افغانی کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔‘
پولیس کے مطابق گرفتار ملزموں کے قبضے سے موٹر سائیکل کے مختلف پارٹس اور چیسس برآمد ہوئے ہیں۔ پولیس نے ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کرکے مزید تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔
ایس ایس پی ویسٹ کے مطابق پولیس کی جانب سے شہر میں چوری کے سامان کی خرید و فروخت میں ملوث ملزموں کے خلاف کریک ڈاون کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’پولیس کو شہر میں کئی ایسے کباڑیوں کے بارے میں معلومات ملی ہیں جو چوری کے سامان کی خرید و فروخت میں ملوث پائے گئے ہیں۔ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کے خلاف گھیرا مزید تنگ کر رہے ہیں۔‘
کراچی شہر میں کباڑیوں کے خلاف کارروائیاں کیوں جاری ہیں؟  
پولیس کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں کباڑ کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پولیس کی کارروائی کیے جانے کے خلاف کراچی شیر شاہ کباڑ مارکیٹ کی ایسوسی ایشن نے عدالت میں پولیس کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔
درخواست میں کباڑ ایسوسی ایشن کی جانب سے پولیس پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’پولیس غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی آڑ میں قانونی طریقے سے سکریپ کا کام کرنے والوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔‘

ایس ایس پی ویسٹ کے مطابق شہر میں چوری کے سامان کی خرید و فروخت میں ملوث ملزموں کے خلاف کریک ڈاون کا سلسلہ جاری ہے (فوٹو: اے پی پی)

سکریپ ایسوسی ایشن کے صدر اقبال خان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی جانب سے اچانک کباڑ کا کام کرنے والی سینکڑوں دکانیں بند کروائی گئی ہیں جس سے ہزاروں افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’شہر میں جو بھی غیر قانونی کام کرتا ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن جو لوگ قانونی طریقے سے بیرونی ممالک سے سامان درآمد کر اپنا کاروبار کررہے ہیں انہیں کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کراچی میں سینکڑوں لوگ سکریپ کا کام کر رہے ہیں، جو بیرون ممالک سے سکریپ اور استعمال شدہ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا سامان خریدتے ہیں، قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ سامان پاکستان لایا جاتا ہے۔ پورٹ پر سامان کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے، انوائس کے مطابق آئیٹمز پر ڈیوٹی عائد کی جاتی ہے۔ سکریپ امپورٹرز سامان کی ڈیوٹی ادا کرتا ہے اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی سامان کو مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس سلسلے میں ایسوسی ایشن کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے، اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اس معاملے پر نظر ثانی کی جائے تاکہ سکریپ کے کاروبار سے وابستہ افراد کا روزگار بحال ہوسکے۔‘
اس سے قبل کراچی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے ایک گروہ نے دوران تفتیش پولیس کو بتایا تھا کہ ’کراچی سے چوری یا چھینے جانے والی بیشتر موٹر سائیکلیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے اوتھل کی مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہیں۔‘
اس گروہ کے ایک رکن نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ان کا گروہ ’ایک ماہ میں تقریبا 8 سے 10 موٹر سائیکلیں چوری یا چھیننے کے بعد ان کو اندرون سندھ اور بلوچستان میں فروخت کر دیتا تھا۔‘

شیئر: