کیا پنجاب کے رہائشی حکومت کو ’کوڑا ٹیکس‘ دینے کے لیے تیار ہیں؟
کیا پنجاب کے رہائشی حکومت کو ’کوڑا ٹیکس‘ دینے کے لیے تیار ہیں؟
جمعرات 23 مئی 2024 13:24
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
محکمہ بلدیات کی سمری میں یہ درج نہیں کہ یہ ٹیکس کیسے اکھٹا کیا جائے گا۔ فائل فوٹو: اے پی پی
حکومت پنجاب صوبہ بھر میں صفائی ستھرائی کے لیے ایک نیا ٹیکس لگا رہی ہے۔ محکمہ بلدیات کی طرف سے وزیراعلٰی آفس کو صوبے میں نیا ٹیکس لگانے کی سمری بھیجی گئی جس کی وزیراعلٰی نے منظوری دے دی ہے۔ البتہ اس ٹیکس کی حتمی منظوری صوبائی کابینہ دے گی۔
محکمہ بلدیات کی جانب سے بھیجی گئی اس سمری کے مطابق یہ ٹیکس صوبہ بھر میں شہروں اور دیہاتوں میں بیک وقت لاگو ہو گا۔ البتہ شہروں میں یہ رقم دیہاتوں کے مقابلے میں زیادہ رکھی گئی ہے۔ اس مجوزہ ٹیکس کے مطابق شہروں میں پانچ مرلے تک گھروں کے لیے ماہانہ 300 روپے رکھے گئے ہیں۔ جبکہ اسی طرح دس مرلہ اور اس سے زیادہ بڑے گھروں پر 500 روپے ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ جبکہ دیہاتوں میں دس مرلہ گھروں پر 200 روپے صفائی ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔
بلدیات کے وزیر ذیشان رفیق کے مطابق یہ منصوبہ ستھرا پنجاب مہم کا دوسرا حصہ ہے۔ ’آپ اس کو ٹیکس نہیں کہ سکتے بلکہ یہ ایک معمولی فیس سے جو شہروں اور دیہاتوں کو صاف رکھنے کے لیے لگائی جائے اور ابھی محکمہ بلدیات نے اپنی سمری کابینہ میں بھیجی ہے اس بات کے بھی چانسز ہیں کہ اس میں کچھ تبدیلی کی جائے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلٰی مریم نواز کے وژن نے تحت صوبے میں صفائی ستھرائی کا کام حکومت سنبھالتے ہی شروع کر دیا گیا تھا۔ اور تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے گئے۔ اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صفائی کا پورا نظام مرتب کیا جائے اور اسے آوٹ سورس بھی کریں اور ہر 250 گھر کے لیے ایک خاکروب ہو گا۔ ورکنگ پیپر ہم نے پیش کر دیا ہے۔ اب باقی چیزیں اس کی حتمی منظوری کے بعد دیکھیں گے۔‘
پنجاب کے شہری کیا کہتے ہیں؟
حکومت کی طرف سے صفائی کے مجوزہ نئے ٹیکس کا زیادہ تر لوگوں کو ابھی پتا نہیں اور لوگ اس پر اچنبھے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ عطاللہ بھٹی شیخوپورہ کے ایک زمین دار ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ اس نئے ٹیکس پر ان کی کیا رائے ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جو کوئی بھی ٹیکس دیہاتوں پر لگانے کی کوشش کر رہا ہے انہیں شاید یہ اندازہ نہیں کہ دیہاتوں میں تو سیوریج کا نظام ہی نہیں۔ اور اسی وجہ سے گندگی کے ڈھیر اور جوہڑ ہیں جب تک ان کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا اس کا کوئی فائدہ نہیں اور دوسرا جو مہنگائی چل رہی ہے لوگوں نے کھانے پینے کی چیزیں لینا کم کر دی ہیں اور وقت گزار رہے ہیں، میرا نہیں خیال کہ وہ حکومت کو ایسا ٹیکس دینے کو تیار ہوں گے دیہاتوں میں تو بالکل نہیں۔‘
لاہور سے تعلق رکھنے والی مسز وقار کا کہنا ہے کہ ’میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ حکومت کوئی ایسا ٹیکس لا رہی ہے لیکن ہم تو پہلے ہی اپنی سوسائٹی میں کوڑا اٹھوانے کی فیس مینٹیننس کی مد میں دیتے ہیں۔ کیا اب یہ پیسے ہمیں حکومت کو بھی دینا پڑیں گے؟ میرا خیال ہے حکومت کو ساری توجہ مہنگائی کم کرنے پر دینی چاہیے۔‘
پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے سابقہ کنسلٹنٹ عبد الرؤف انجم کہتے ہیں صفائی ستھرائی کا معاملہ صوبائی نہیں بلکہ ضلعی حکومتوں کا مینڈیٹ اور مسئلہ ہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صفائی، سیوریج جیسے معاملات ضلعی حکومت کے ہوتے ہیں، میونسپلٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اپنی حدود میں وہ یہ کام کیسے کرے گی۔ چونکہ پنجاب میں بلدیاتی نظام سرے سے موجود ہی نہیں اس لیے اس طرح کی سکیمیں سوچی جا رہی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی صفائی ستھرائی کے معاملات وفاقی یا صوبائی حکومتیں نہیں دیکھتیں۔ کیونکہ ایک ایک گلی محلے میں جانے کے لیے نہ تو ان کے پاس اس ہیومین ریسورس ہوتا ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ایسے مینیج ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج بلدیاتی اداروں کو کھڑا کیا جائے اور ان کے ذمے یہ کام لگائے جائیں تو یہ اچھی طرح ہو سکتا ہے۔‘
محکمہ بلدیات کی سمری میں یہ درج نہیں کہ یہ ٹیکس کیسے اکھٹا کیا جائے گا۔ یا گھروں میں ٹیکس کا نوٹس کون سا محکمہ بھیجے گا۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمہ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ابھی معاملات بہت ہیں ابتدائی سٹیج پر ہیں۔ اگر کابینہ اسے منظور کرتی ہے تو پھر رولز بھی بنیں گے اور طریقہ کار بھی طے ہو گا۔ آپ بھروسہ رکھیے اور حکومت کو اپنا کام کرنے دیجیے۔ ایسے ہی پروپوزلز پر اور آئیڈیاز پر حکومتیں کام کرتی رہتی ہیں۔ اور اس کے حتمی نفاذ تک اس میں ترامیم بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لہذا اس حوالے سے بھی انتظار کیا جائے۔‘