Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاڑیوں کی بیٹریاں چوری ہونے کے واقعات میں اضافہ، اسلام آباد پولیس نے 5 گروہ پکڑ لیے

راولپنڈی اور اسلام آباد میں گاڑیوں سے بیٹریاں چرانے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ فائل فوٹو
’دفتر سے 5 بجے چھٹی کی اور اسلام آباد کی ایک بڑی مارکیٹ بلیو ایریا موبائل فون ٹھیک کروانے کی غرض سے گیا۔ ایک دکان کے سامنے اپنی گاڑی پارک کر لی۔‘
'موبائل فون کے ٹھیک ہونے میں کم و بیش 10 سے 15 منٹ لگ سکتے تھے۔ اس لیے دکان کے اندر ہی کام کے مکمل ہونے کا انتظار کیا۔'
’کم و بیش 10 سے 15 منٹ گزرنے کے بعد جب واپس جا کر گاڑی سٹارٹ کرنا چاہی تو ناکام رہا۔‘
’دو سے تین مرتبہ کی کوشش کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو گاڑی کا بونٹ کھولنا پڑا۔‘
’بونٹ تو کھل گیا مگر یہ کیا اندر سے بیٹری ہی غائب۔ مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی کہ آخر دس منٹ کے اندر میری گاڑی کی بیٹری کیسے غائب ہو گئی؟‘
یہ آپ بیتی تھی اسلام آباد کے ایک رہائشی اور نجی کمپنی میں کام کرنے والے محمد سعد کی جن کی گاڑی کی بیٹری چند منٹ میں چوری کی گئی تھی۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ چور کی ہاتھ صفائی اِتنی تھی کہ بونٹ یا گاڑی میں بیٹری رکھنے والے حصے کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ خانی معلوم نہیں ہوئی۔
محمد سعد نے اپنی گاڑی ٹھیک اُسی موبائل شاپ کے باالمقابل کھڑی کی تھی جہاں اسے اُنہوں نے اپنے موبائل کا کام کروایا تھا۔
محمد سعد کے مطابق دوکان کے سی سی ٹی وی فوٹیجز چیک کرنے پر معلوم ہوا کہ صرف پانچ منٹ کے اندر گاڑی کی بیٹری چوری کر لی گئی ہے۔
’سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے پر معلوم ہوا کہ جیسے ہی میں گاڑی پارک کر کے موبائل شاپ میں داخل ہوا تو قریب سڑک کنارے بیٹھا ایک نوجوان میری گاڑی کے قریب آیا اور اُس نے دوبارہ تسلی کی میں دوکان کے اندر داخل ہو گیا ہوں۔‘
واردات میں صرف ایک شخص ملوث نہیں تھا بلکہ سی سی ٹی فوٹیج میں ہی معلوم ہوا کہ گاڑی کے تھوڑے ہی فیصلے پر ملزم کا دوسرا ساتھی موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا تھا جو اشاروں کنایوں میں اپنے ساتھی کے ساتھ رابطے میں بھی تھا۔
متاثرہ شہری کا کہنا تھا کہ پلک جھپکتے ہی ملزم نے گاڑی کا بونٹ کھولا، بیٹری نکالی اور اپنے ساتھی کے ساتھ بیٹھ کر فرار ہو گیا۔ ’اور پھر میرے پاس گاڑی کی نئی بیٹری خریدنے کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں تھا۔’
محمد سعد نے بعد ازاں پولیس کو بیٹری چوری ہونے کی درخواست بھی دی گئی تاہم ملزمان کا ابھی تک کچھ پتہ نہ چل سکا۔
اسی طرح اسلام آباد بنی گالہ کے رہائشی اعجاز احمد کی گاڑی کے چاروں ٹائر اور بیٹری گھر کے باہر سے ہی چوری ہو گئے۔

آٹو پارٹس کی بڑی مارکیٹ میں بھی چوری کا سامان فروخت کیے جانے کی شکایات ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اپنی گاڑی گھر کے باہر ہی کھڑی کرتے تھے۔ جب گزشتہ ماہ صبح دفتر جانے کے لیے گھر سے باہر نکلا تو میری گاڑی چاروں ٹائر غائب تھے۔ یہی نہیں گاڑی کا بونٹ کھولنے پر معلوم ہوا کہ اندر سے بیٹری بھی چرا لی گئی ہے۔
گاڑیوں کے پرزے یا بیٹریاں چوری ہونے کی وارداتیں صرف اسلام آباد میں ہی نہیں ہو رہیں، راولپنڈی کے شہری بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
راولپنڈی بحریہ ٹاؤن کی رہائشی خاتون عروج آمین کی گاڑی کی بیٹری بھی راولپنڈی کے بڑے تجارتی مرکز کمرشل مارکیٹ سے چرا لی گئی۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ شاپنگ کرنے کی غرض سے راولپنڈی کمرشل مارکیٹ آئیں۔ واپسی پر گاڑی سٹارٹ نہ ہوئی تو بونٹ کھولنے پر معلوم ہوا کہ گاڑی میں بیٹری ہی موجود نہیں۔
اس حوالے سے جب اُردو نیوز نے اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ حالیہ عرصے میں اسلام آباد پولیس نے گاڑیاں، اُن کے پُرزے یا بیٹریاں چوری کرنے میں ملوث مخلتف گروہوں کو گرفتار کیا ہے۔
’پولیس نے ایسے 5 سے 6 گروہ گرفتار کیے ہیں جو گاڑیوں کی چوری یا اُن کے پُرزے چرانے میں ملوٹ تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس کو گاڑیوں کی چوری یا اُن کے پُرزے بالخصوص بیٹریوں کی چوری پر کئی شکایات موصول ہوئی ہیں۔
’اسلام آباد پولیس نے ملزمان سے چوری شدہ سامان بشمول گاڑیوں کی بیٹریاں بھی برآمد کی گئی ہیں۔‘
دوسری جانب اردو نیوز نے راولپنڈی پولیس کے ترجمان سے رابطہ کر کے ایسے واقعات کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس کی جانب سے تاحال کوئی اعدادوشمار نہیں بھجوائے جا سکے۔
اٗردو نیوز نے راولپنڈی میں گاڑیوں کے پارٹس کی مشہور مارکیٹ چاہ سلطان میں گزشتہ 30 سال سے گاڑیوں کے سپیئر پارٹس فروخت کرنے والے دوکاندار وقار خان سے رابطہ کیا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی آخر چور گاڑیوں کے پرزے یا بیٹریاں نکال کر کہاں فروخت کرتے ہیں؟
وقار خان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی کے چاہ سلطان کے ڈیلرز گاڑیوں کے پرزے مقامی اور بیرون ممالک دونوں جگہوں سے منگوائے ہیں۔
جس طرح دکاندار مکمل قواعد و ضوابط کے ساتھ گاڑیوں کے پرزے خریدتے ہیں تو وہیں کچھ افراد کم قیمت پر بھی گاڑیوں کے پرزے اور بیٹریاں فروخت کر جاتے ہیں جو کہ مبینہ طور پر چوری شدہ سامان ہوتا ہے۔
جب اُن سے یہ استفسار کیا گیا کہ گاڑیوں کا سامان خریدنے سے پہلے کیا پوچھا نہیں جاتا کہ یہ کہاں سے لایا گیا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا اگر ایک پرزہ یا گاڑی کی بیٹری کسی دکاندار کو سستے داموں مل رہی ہے تو وہ اِسے خریدنے سے کیوں انکار یا ایسے سوالات کیوں کرے گا؟
’دوسری بات یہ ہے کہ ہم کس بنیاد پر کسی شخص کو یہ کہ سکتے ہیں کہ وہ چوری کر کے سامان بیچنے آیا ہے- ہماری مارکیٹ میں تو گاڑیوں کے پرزے کی خریدوفروخت معمول کا کام ہے۔‘
چور چاہ سلطان مارکیٹ میں کی گاڑیوں کا سامان کیوں فروخت کرتے ہیں۔ اس سوال پر وقار خان کا کہنا تھا کہ بڑی مارکیٹوں میں ہی آپ کی چیز بآسانی فروخت ہو جاتی ہے۔ چاہ سلطان میں چاروں صوبوں اور کشمیر سے لوگ گاڑیوں کا سامان کی خریدنے یا بیچنے آتے ہیں۔
’چونکہ یہاں گاڑیوں کا سامان فوری فروخت ہو جاتا ہے اور خریدنے والا زیادہ پوچھ گچھ بھی نہیں کرتا اس لیے جرائم پیشہ عناصر بھی یہاں کا رخ کر لیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کچھ دکاندار ڈیلرز کے ذریعے بھی گاڑیوں کے پرزوں اور بیٹریوں کی خریدوفروخت کا کام کرتے ہیں جو کہ نسبتاً زیادہ محفوظ عمل ہے اور اکثر گاڑیوں کا سامان چوری کرنے ملزمان کسی تیسرے فریق کے ذریعے ہی سامان کی فروخت کو ترجیح دیتے ہیں۔

شیئر: