Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ووٹوں کی گنتی، بی جے پی کا دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب ٹوٹ رہا ہے؟

بے جے پی کے قومی جمہوری اتحاد کو 300 سے زائد سیٹوں پر برتری حاصل ہے۔ فوٹو: روئٹرز
انڈیا میں عام انتخابات کا ساتواں اور آخری مرحلہ ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک کے غیرحتمی نتائج کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیرِ قیادت قومی جمہوری اتحاد کو لوک سبھا میں واضح برتری حاصل ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا کے مقامی چینلز پر دکھائے جانے والے ابتدائی نتائج کے مطابق نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (قومی جمہوری اتحاد) کو 300 سے زائد نشستوں پر برتری حاصل ہے جبکہ بی جے پی 255 سیٹوں پر آگے ہے۔
راہل گاندھی کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے زیرِ قیادت ’انڈیا الائنس‘ کو 172 نشستوں پر برتری حاصل ہے جبکہ کانگریس اکیلے صرف 71 سیٹوں پر آگے ہے۔
ابھی تک کی گنتی کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کو وارانسی کی سیٹ پر سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔
پہلے مرحلے میں پوسٹ کے ذریعے موصول ہونے والے پیپر بیلٹس کی گنتی کی جاتی ہے جو دراصل اپنے حلقوں سے دور ڈیوٹی پر فائز سرکاری اہلکاروں اور فوجیوں کی جانب سے کاسٹ کیے جاتے ہیں۔
اس مرتبہ پوسٹل بیلٹ کی سہولت 85 سال سے زائد عمر کے ووٹرز یا معذور افراد کو بھی فراہم کی گئی تھی تاکہ وہ گھر بیٹھے اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں۔
ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے کی توقع ہے۔ پوسٹل بیلٹس کی گنتی کے بعد ای وی ایم مشینوں کے ذریعے کاسٹ کیے گئے الیکٹرانک ووٹس کی گنتی کا آغاز ہوتا ہے۔
کانگریس کے ترجمان پاون کھیرہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ابتدائی ٹرینڈز ہیں۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بہتر نتائج دیکھیں گے۔‘

غیرحتمی نتائج کے مطابق قومی جمہوری اتحاد کو 300 سے زائد نشستوں پر برتری حاصل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

 یکم جون کو ووٹنگ کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد مقامی ٹیلی ویژن چینلز پر نریندر مودی کے لیے بڑی جیت کا امکان ظاہر کیا گیا تھا تاہم انڈیا میں ایگزٹ پولز کے تحت لگائے گئے اندازے ماضی میں غلط ثابت ہوتے آئے ہیں۔
انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ایک ارب کے قریب ووٹرز رجسٹرڈ تھے جس میں سے 64 کروڑ 20 لاکھ شہری ووٹ ڈالنے نکلے۔
سرمایہ کار پہلے ہی نریندر مودی کی ممکنہ جیت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے توقع کر رہے ہیں کہ آئندہ سالوں میں مضبوط معاشی ترقی اور کاروبار حامی اصلاحات ہوں گی، جبکہ ناقدین کو خدشہ ہے کہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے آئین میں بڑی تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

شیئر: