Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قلم کے ذریعے انتقام‘، ڈرون حملے سے متاثرہ نوجوان کی تحریک

صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں نے سینکڑوں خاندان اجاڑے ہیں۔ ان حملوں میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں جبکہ ہزاروں افراد معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عبدالقادر بھی ایک ایسے ہی بدقسمت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے 19 افراد ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ 
جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین کے رہائشی عبدالقادر اس وقت 9 برس کے تھے جب ان کے والد، بھائی، ماموں زاد کزن سمیت خاندان کے 19 افراد ہلاک ہوئے۔
عبدالقادر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’22 جون 2009 کو ان کے آبائی گاؤں میں ان کے والد اور بھائی سمیت 200 سے زائد افراد جنازے میں شریک تھے جب ڈرون حملہ ہوا اور 100 سے زائد افراد جان سے گئے جبکہ بیسیوں زخمی ہوئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں اس وقت 9 سال کا تھا اور ہم ڈی آئی خان میں آئی ڈی پیز کے طور پر رہ رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد بھی ڈرون حملے کا خطرہ موجود تھا جس کے باعث سب مقتولین کی اجتماعی تدفین کی گئی۔‘

’ڈرون حملوں کے خوف نے سب کو ذہنی مریض بنا دیا‘

نوجوان عبدالقادر نے کہا کہ ’اس واقعہ کے بعد ہمارے ذہنوں میں خوف موجود تھا کیوں کہ ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی خوف اور ڈر موجود ہے۔ ہم آج بھی ڈپریشن کا سامنا کر رہے ہیں۔‘

’اپنے خاندان کا پہلا ڈاکٹر ہوں‘

عبدالقادر نے اپنے مرحوم والد کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’والد ہمیشہ ہماری تعلیم پر زور دیتے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ میں ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کروں۔ میں نے اسی لیے میڈیکل کی تیاری کی۔‘
عبدالقادر گجو خان میڈیکل کالج صوابی میں تھرڈ ایئر کے طالب علم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے قبیلے اور خاندان میں آج تک کوئی ڈاکٹر نہیں تھا، مجھے یہ اعزاز حاصل ہو گا کہ میں خاندان کا پہلا ڈاکٹر بنوں گا۔‘

عبدالقادر نے میڈیکل کالج میں تعلیمی انقلاب کے نام سے تنظیم شروع کی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’بم نہیں قلم کے ذریعے انتقام لیں گے‘

عبدالقادر نے کہا کہ ’مجھے بہت سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے اپنا پورا خاندان گنوا دیا مگر انتقام کی خاطر بم نہیں باندھا بلکہ میں نے سوچا کہ ہم اگر حقیقی معنوں میں معاشرے میں انقلاب لانا چاہتے ہیں تو بم کے بجائے قلم سے حالات بدل سکتے ہیں۔‘
انہوں نے میڈیکل کالج میں تعلیمی انقلاب کے نام سے تنظیم شروع کی ہے جس کے تحت تعلیمی آگاہی پھیلائی جا رہی ہے۔ اس تنظیم کے تحت ضم قبائلی اضلاع کے تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر جاکر علم اور قلم کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہے۔ 
عبدالقادر کے مطابق وہ بچوں اور نوجوانوں کے پاس جاکر اپنی کہانی سناتے ہیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ میں جن حالات میں پڑھا ہوں تو وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں کے سکولوں میں جاکر مفت پڑھاتے ہیں۔

’پیسے نہیں ہمیں سکول اور لائبریری چاہیے‘

عبدالقادر نے مطالبہ کیا کہ ’این جی اوز یا کوئی بھی ادارہ اگر ہمارے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو ہمیں پیسے یا خوراک نہ دیں بلکہ گرلز سکول اور لائبریری قائم کریں۔ اگر کوئی متاثرہ خاندان کے دکھوں کا ازالہ کرنا چاہتا ہے تو ہمیں سکول بنا کر دے تاکہ آنے والی نسل کا فائدہ ہو۔‘
مزید کہا کہ ’آج تک ہمیں جو دکھایا گیا ہم وہی دیکھتے تھے ہم نے خود اپنے حالات بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اب ضرورت ہے ہم خود کھڑیں ہوجائیں اور تعلیم حاصل کرکے شعور کی راہ پر چلیں۔‘

شیئر: