Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صوفیہ فردوس ریاست اوڈیشہ کی پہلی خاتون مسلمان رکنِ اسمبلی کیسے بنیں؟

2014 اور 2019 کے انتخابات میں صوفیہ فردوس پہلے سے ہی اپنے والد کی الیکشن مہم میں سرگرم تھیں (فوٹو: این ڈی ٹی وی)
محمد مقیم انڈین ریاست اوڈیشہ میں کٹک کے علاقے سے کانگریس کے ایم ایل اے تھے اور رواں برس کے آغاز میں صوفیہ فردوس اپنے والد کے لیے دوبارہ انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہی تھیں۔
تاہم ریاستی اسمبلی کے انتخابات شروع ہونے سے بمشکل ایک ماہ قبل اس خاندان کو ایک جھٹکا لگا جب ان کی ریئل اسٹیٹ فرم میٹرو گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر مسٹر مقیم کو پتہ چلا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل ہیں۔
کیونکہ سپریم کورٹ نے اوڈیشہ رورل ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے قرض فراڈ کیس میں ان کی سزا پر حکم امتناعی جاری نہیں کیا تھا۔
30 دن باقی رہ جانے اور کوئی امیدوار نہ ہونے کے بعد کانگریس نے اپنی امید صوفیہ فردوس پر باندھ دی، اور وہ بی جے پی کے پورن چندر مہاپاترا کو آٹھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر ریاست کی پہلی خاتون مسلم ایم ایل اے بنیں۔
این ڈی ٹی وی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوفیہ فردوس نے واضح طور پر اپنی غیر متوقع سیاسی انٹری کا ذکر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں سیاست دان نہیں ہوں، جب میرے والد الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار پائے، تو چار پانچ سو حامیوں کو ہماری رہائش گاہ پر بلایا گیا۔ میرے والد نے کٹک میں جو محنت اور ٹھوس بنیاد قائم کی تھی اس کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے متفقہ طور پر مجھے میدان میں اتارنے کی حمایت کی۔‘
2014 اور 2019 کے انتخابات میں صوفیہ فردوس پہلے سے ہی اپنے والد کی الیکشن مہم میں سرگرم تھیں۔ پارٹی کے نچلی سطح کے کارکنوں کے ساتھ ان کی واقفیت اور ہم آہنگی نے انہیں اس الیکشن کے لیے فطری انتخاب بنایا۔ میڈیا کی قیاس آرائیوں نے اس رفتار کو مزید تقویت بخشی، اور پارٹی کے سینیئر لیڈر گری بالا بہرا نے ان کی بطور امیدوار تصدیق کی۔
صوفیہ فردوس کو انتخابی مہم کی مختصر مدت کے مشکل چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جس کی تیاری کے لیے صرف ایک ماہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس انتخابات کے لیے صرف ایک ماہ کا وقت تھا۔ میرا بڑا خوف یہ تھا کہ لوگ اتنی جلدی مجھے ووٹ کیسے دیں اور مجھ پر اعتماد کیوں کریں گے؟‘

صوفیہ فردوس کو انتخابی مہم کی مختصر مدت کے مشکل چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔  (فوٹو: این ڈی ٹی وی)

ان کا کہنا تھا کہ ’سخت گرمی میں انتخابی مہم صبح 6 بجے سے دوپہر 2 بجے تک شروع ہوتی۔ پھر اسے شام 5 بجے سے رات 9 بجے تک دوبارہ شروع کیا جاتا۔ میرے پاس لوگوں تک پہنچنے کے لیے صرف ایک مہینہ تھا اور صرف گھر گھر مہم چلانے پر توجہ مرکوز تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ میری جیت کے پیچھے میرے والد کا اچھا کام تھا اور ان کی کارکردگی کے پمفلٹ ہم بڑے فخر سے بانٹ رہے تھے۔‘
اوڈیشہ اسمبلی میں سب سے کم عمر قانون سازوں میں سے ایک کے طور پر صوفیہ فردوس کو اب بی جے پی اور نوین پٹنائک کی بیجو جنتا دل (بی جے ڈی) کے تجربہ کار سیاست دانوں کے خلاف مقابلہ کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔
ایک مسلمان ایم ایل اے کے طور پر ان کی شناخت کے بارے میں پوچھے جانے پر صوفیہ فردوس نے کہا کہ ’میں ایک اوڈیا، ایک انڈین اور سب سے پہلے ایک خاتون ہوں۔ ریئل اسٹیٹ میں اپنے کیریئر اور پیشہ ورانہ زندگی کے دوران میں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے سخت محنت کی ہے اور سیاست میں بھی اسے جاری رکھوں گی۔‘

شیئر: