خیبرپختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے لیے انفراسٹرکچر کو کتنا بہتر بنایا گیا؟
خیبرپختونخوا میں سیاحت کو فروغ دینے لیے انفراسٹرکچر کو کتنا بہتر بنایا گیا؟
اتوار 16 جون 2024 11:03
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
ترجمان ٹوارزم اتھارٹی نے بتایا کہ چھوٹے ڈیموں پر قیام کے لیے ہوٹل اور ریستوران بنانے کی منظوری دی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خیبرپختونخوا میں سال 2013 سے پی ٹی آئی کی حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہی ہے مگر آج بھی بیشتر سیاحتی مقامات تک رسائی کے لیے سڑک موجود نہیں۔
سنہ 2013 میں پی ٹی آئی جب برسراقتدار آئی تو سابق وزیراعظم عمران خان کی ذاتی دلچسپی کے باعث صوبائی حکومت نے سیاحت کے فروغ کا وژن پیش کیا اور اس حوالے سے اقدامات کے دعوے بھی کیے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے سب سے پہلے سیاحتی مقامات میں سڑکوں کا جال بچھانے کا اعلان کیا جس میں سوات، اپر دیر، چترال اور ہزارہ ڈویژن کے علاقے شامل تھے۔ حکومتی دعوؤں کے مطابق ان علاقوں میں شاہراہوں کی تعمیر پر کام شروع بھی ہوا مگر کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
کالام روڈ، اپر دیر کمراٹ کے راستوں پر کسی حد تک تعمیراتی کام ہوا تاہم سیلاب کی وجہ سے ان سڑکوں کی حالت پہلے سے بدتر ہو گئی۔ اس کے علاوہ دیگر سیاحتی مقامات کی سڑکوں پر کام سست روی کا شکار ہوا جن میں گبین جبہ، چترال اور سوات کے کچھ علاقے شامل ہیں۔
انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سابق صوبائی وزیر سیاحت عاطف خان نے فنڈز بھی مختص کیے مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ کام مکمل نہ ہوئے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے سڑکوں کے علاوہ نئے ٹورسٹ سپاٹ بنانے کے دعوے بھی کیے۔
یہ ٹورسٹ سپاٹ گبین جبہ، کمراٹ ویلی، سمانا سپاٹ، سورلاسپور، کوہستان کے علاوہ اپر دیر میں ہیں مگر ان پُرفضا مقامات تک سڑک کے ذریعے سیاحوں کی رسائی کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے۔
پی ٹی آئی کی حکومت ٹوارزم کو فروغ دینے میں کتنی کامیاب رہی؟
خیبرپختونخوا کے ٹور گائیڈ عمران شاہ کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے سیاحت کی اچھی پالیسی بنائی گئی جو کاغذوں کی حد تک محدود رہی اور عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں آن لائن ویزا اور ویزا آن آرائیول کی پالیسی شروع ہوئی جو کہ قابل ستائش اقدام تھا جس کی وجہ سے فارن ٹورسٹ کو آسانی ہوئی اور سیاحت کو فروغ ملا مگر پالیسی بدلنے کے بعد پھر سیاحوں کو ویزے کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سیاحتی مقامات میں انفراسٹرکچر کے حوالے سے ٹور گائید عمران شاہ کا کہنا تھا کہ ’ناران، شوگران اورگلیات کی سڑکوں پر کافی کام ہوا ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی مگر سوات، دیر اور بالخصوص چترال میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ چترال میں شندور سے لے کر وادی کیلاش تک سڑک کا نام و نشان نہیں، جگہ جگہ پر کام جاری ہے مگر رفتار چیونٹی والی ہے۔
عمران شاہ نے بتایا کہ سب سے بڑے فیسٹیول چترال میں منعقد ہوتے ہیں جہاں سالانہ غیرملکی سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے مگر ان علاقوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
نسیم ولی ٹور آپریٹر کے مطابق ہزارہ ڈویژن میں سہولیات قدرے بہتر ہیں جبکہ ملاکنڈ میں انفراسٹرکچر کی صورتحال بہت خراب ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر سیاحتی مقامات کی سڑکیں سیلاب سے تباہ ہوئیں مگر بحالی ابھی تک نہیں ہوئی۔ ’اگر سیاحوں کو روڈ کی سہولت میسر نہیں تو سیاحت کو کیسے آگے لے کر جائیں گے؟‘
نسیم ولی کا کہنا تھا کہ مدک لشٹ ایک خوبصورت وادی ہے جہاں سیاحت کے لیے پوٹینشل موجود ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وادی تک جانے کی سڑک کچی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں رہائش کے لیے کوئی ریسٹ ایریا موجود نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ سیاحت نے عالمی بینک کے تعاون سے کائٹپروجیکٹ شروع کیا جس کی مد میں ملنے والا قرض حکومت خیبرپختونخوا نے واپس کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کائٹ پروجیکٹ کا مقصد ٹوارزم کے شعبے میں سرمایہ کاری کو لانا تھا مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹوارزم کارپوریشن ایک پرائیویٹ ادارہ تھا جس کو کلچر اینڈ ٹوارزم اتھارٹی بنا دیا گیا مگر یہ اتھارٹی سیاحتی مقامات میں انفراسٹرکچر تو دور کی بات عوامی لیٹرین تک کی سہولت فراہم کرنے میں ناکام ہے۔‘
سیاحتی علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ
محکمہ سیاحت کے مطابق مختلف مقامات پر کل 112 کلومیٹر روڈ کی توسیع پر کام جاری ہے جس کے لیے فنڈز جاری کیے جا چکے ہیں جبکہ 130 کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر کے لیے ورلڈ بینک کے اشتراک سے کام شروع کیا جائے گا۔
ان سڑکوں کے منصوبوں میں ایبٹ آباد ٹھنڈیانی روڈ شامل ہے جو 24 کلومیٹر طویل ہے، مانکیال 23 کلومیٹر ہے اسی طرح مدک لشٹ روڈ 43 کلومیٹر اور سپاٹ ویلی روڈ پر کام شروع ہو رہا ہے جس سے بڑی حد تک سیاحوں کو آسانی ہو گی۔
سیاحوں کے لیے جدید کیمپنگ پاڈز
خیبرپختونخوا محکمہ سیاحت نے سال 2016 میں سیاحتی مقامات میں قیام کے لیے فائبر گلاس سے کیمپنگ پاڈز بنائے جن میں ٹھنڈیانی ایبٹ آباد، شاران کاغان، یخ تنگی شانگلہ، گبین جبہ سوات، بشیگرام سوات، بمبوریت کیلاش، الائی بٹگرام، شہید سر بونیر، شیخ بدین ڈی آئی خان اور ملکہ مہابان بونیر کے علاقے شامل ہیں۔
محکمہ سیاحت نے آٹھ مزید سیاحتی مقامات میں کیمپنگ پاڈز نصب کرنے کی منظوری دی جن میں اپر دیر، اپر چترال، اوگزئی اور شانگلہ شامل ہے۔ ان جدید کیمپنگ پاڈزمیں تھری سٹار ہوٹل کے کمروں کی طرح تمام سہولیات دستیاب ہوں گی۔
محکمہ سیاحت کا موقف
خیبرپختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس نے اردو نیوز کو اپنے موقف میں بتایا کہ سیاحوں کے لیے رہائش کا مسئلہ آسان کر دیا گیا ہے، 15 مقامات پر جدید پاڈز لگائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سرکاری ریسٹ ہاؤسز کی تزئین و آرائش کر کے لیز پر دیے گئے جن میں کمروں کی باقاعدہ آن لائن بکنگ ہوتی ہے۔ ’پہلی بار ضم اضلاع اورکزئی کے سمانا ٹاپ پر کیمپنگ پاڈز اور ریسٹ ایریا کا افتتاح کر دیا گیا ہے جو کہ سیاحوں کے لیے نیا ٹھکانہ بن جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ چھ سیاحتی مقامات میں ٹورسٹ فیسلیٹیشن سینٹر قائم کیے گئے ہیں جہاں سے سیاحوں کو ہر قسم معلومات حاصل ہو گی جبکہ چھ اضلاع میں ٹوارزم پولیس تعینات کی گئی ہے جن کی اولین ڈیوٹی سیاحوں کی مدد کرنا ہے۔
ترجمان ٹوارزم اتھارٹی نے بتایا کہ چھوٹے ڈیموں پر قیام کے لیے ہوٹل اور ریستوران بنانے کی منظوری دی گئی ہے جن میں صوابی کنڈل ڈیم اور کوہاٹ کے تانڈہ ڈیم کا انتخاب کیا گیا ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر برائے سیاحت زاہد چن زیب نے سیاحوں کی آسانی کے لیے ہیلی کاپٹر سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
زاہد چن زیب نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر سروس کا آغاز چترال کے سیاحتی مقامات سے ہو گا اور اس کے بعد دیگر سیاحتی مقامات پر بھی ہیلی کاپٹر سروس شروع کی جائے گی۔
مشیر سیاحت کے مطابق سڑکوں کے علاوہ سیاحتی انفراسٹرکچر کی بہتری کو ترجیح دی جا رہی ہے جس میں ایڈوینچر پارک، چیئر لفٹ اور بچوں کے لیے پلے لینڈ ایریا شامل ہیں۔