Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں یونیورسٹی کی بس سے گر کر طالب علم کی موت، طلبہ تنظیموں کا احتجاج

ہلاک طالب علم کی شناخت علی اکبر کے نام سے ہوئی ہے جو بی ایس الیکٹرانکس کا طالب علم اور کوئٹہ کے علاقے سرکی روڈ کا رہائشی تھا۔ فوٹو: اردو نیوز
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں یونیورسٹی کی بس سے گر کر ایک طالب علم ہلاک جبکہ  دوسرا زخمی ہو گیا۔ طلبہ تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی کی انتظامیہ کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی کمی کی وجہ سے وہ بھیڑ بکریوں کی طرح  بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ حادثہ گزشتہ روز ایئر پورٹ روڈ پر اس وقت پیش آیا جب بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز (بیوٹمز) کے طلبہ چھٹی ہونے کے بعد یونیورسٹی کی بس میں سوار ہوکر گھر جا رہے تھے۔
جمیل شہید پولیس تھانہ کے ایس ایچ او روزی خان شیرانی نے بتایا کہ دو طلبہ یونیورسٹی کی بس سے گر کر زخمی ہوئے جن میں سے ایک کی موت ہو گئی۔
ہلاک طالب علم کی شناخت علی اکبر کے نام سے ہوئی ہے جو بی ایس الیکٹرانکس کا طالب علم اور کوئٹہ کے علاقے سرکی روڈ کا رہائشی تھا۔ زخمی طالب علم کی شناخت بلال احمد کے نام سے ہوئی ہے جسے علاج کے لیے کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا۔
ایس ایچ او کے مطابق ابتدائی طور پر طلبہ نے بتایا کہ بس میں کافی بھیڑ تھی اس دوران بلال کی طبیعت خراب ہو گئی  اور وہ دروازے کے پاس جا کھڑا ہوا، اس دوران سر چکرانے کی وجہ سے وہ گرنے لگا تو علی نے اسے بچانے کی کوشش کی اس کوشش میں دونوں گر گئے۔ علی  کی موت ہو گئی مگر بلال بچ گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ طالب علم کے لواحقین کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے پولیس نے خود مدعی بن کر ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ’اب ڈرائیور کو گرفتار کرکے عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے اور مزید کارروائی کی جائے گی۔‘
علی اکبر کے کزن عذیر احمد نے بتایا کہ ’ہمیں واقعہ کی زیادہ معلومات نہیں، ان کے ساتھی طلبہ نے بتایا کہ بس میں کافی بھیڑ تھی اور گرمی کی وجہ سے دم گھٹ رہا تھا۔ علی اور ایک دوسرا طالب علم دروازے کے پاس کھڑے تھے اور بدقسمتی سے نیچے گر گئے، سر پر چوٹ  لگنے کی وجہ سے علی کی موت ہو گئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’23 سالہ علی کے والد واپڈا میں ملازم ہیں۔ جوان بیٹے کی موت پر والد سمیت پورا خاندان صدمے میں ہے۔‘
بیوٹمز یونیورسٹی کے طالب علم اور پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (خوشحال گروپ) کے فریدین خان کبزئی نے بتایا کہ یہ کوسٹر بس تھی جس میں بیس بائیس افراد کی گنجائش ہوتی ہے لیکن  اس میں 50 سے زائد طالب علم سوار تھے، کوئی راہداری میں تو کوئی دروازے کے ساتھ کھڑا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’حادثہ بس ڈرائیور کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا وہ تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا۔ بس ڈرائیور کے ساتھ یونیورسٹی کی انتظامیہ، وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر، رجسٹرار اور ٹرانسپورٹ افسر کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ طلبہ سے ٹرانسپورٹ کی مد میں فیس وصول کی جاتی ہے مگر انہیں مناسب سہولت دستیاب نہیں۔‘
بیوٹمز یونیورسٹی نے طالبعلم کی موت کے سوگ میں یونیورسٹی کو ایک دن کے لیے بند رکھا۔ پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (خوشحال گروپ) نے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

بس سے گر کر جان گنوانے والے طالب علم علی اکبر کی فائل فوٹو

پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اچکزئی گروپ)  اور انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ریلی نکالی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے مشترکہ احتجاج  کیا۔
مظاہرین نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور حکومت کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ  ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے طلبہ کو بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سوار کیا جاتا ہے۔ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ بس سے لٹک کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے  یونیورسٹی کے شعبہ ٹرانسپورٹ کے تمام متعلقہ ذمہ داران کو فوری معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔ گورنر نے ہدایت کی کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
بلوچستان کی وزیر تعلیم راحیلہ حمید درانی کی ہدایت پر واقعے کی تحقیقات کے لیے سیکریٹری کالجز اینڈ ہائیر ٹیکنیکل ایجوکیشن حافظ طاہر نے بولان میدیکل اینڈ ہیلتھ سائنس یونیورسٹی کے رجسٹرار سردار اورنگزیب شاہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق یہ کمیٹی ایک ہفتے کے اندر واقعہ کی تحقیقات کے ساتھ مستقبل میں ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے سفارشات بھی پیش کرے گی۔ 

شیئر: