ججز کا اختلافی نوٹ، آزاد ارکان پر ابہام دُور لیکن الیکشن کمیشن کے پاس کیا آپشن باقی؟
ججز کا اختلافی نوٹ، آزاد ارکان پر ابہام دُور لیکن الیکشن کمیشن کے پاس کیا آپشن باقی؟
جمعہ 12 جولائی 2024 17:41
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
سپریم کورٹ کے فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا گیا ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس پر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کے لیے اہل قرار دے دیا ہے۔سپریم کورٹ کے 13 رکنی لارجر بینچ کا یہ فیصلہ 5-8 کے تناسب سے آیا ہے۔
عدالت کے اس فیصلے کے بعد جہاں پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا ہے تو وہیں سنی اتحاد کونسل کے ارکان اور جماعت کے مستقبل کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کی فراہمی پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری اور پھر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب پاکستان تحریک انصاف کے ارکان آزاد ہی تصور ہوں گے یا وہ پارٹی کا حصہ ہوں گے؟
سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو آزاد یا اُن کی کسی جماعت سے وابستگی کے معاملے پر ابہام کو ختم کر دیا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں 39 اراکین اب پاکستان تحریک انصاف کا حصہ قرار پائے ہیں۔ فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں 80 اُمیدواروں کا ڈیٹا جمع کروایا تھا۔
مزید برآں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے باقی 41 ارکان قومی اسمبلی کو آزاد قرار دیا ہے جن کو 15 روز میں اپنی جماعتی وابستگی کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دیگر 41 امیدوار بھی 14 دن میں سرٹیفیکیٹ دے سکتے ہیں کہ وہ سنی اتحادکونسل کے امیدوار تھے۔
سنی اتحاد کونسل آئین کے مطابق مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت قانون اور آئین پر پورا اُترتی ہے۔انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کاحق ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ وہ اُمیدوار جنہوں نے سرٹیفیکیٹ دیے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی سے ہیں انہیں پی ٹی آئی کے امیدوار قرار دیا جائے۔‘
’پی ٹی آئی کو اسی تناسب سے مخصوص نشستیں دی جائیں اور وہ امیدوار جنہوں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں انہوں نے عوام کی خواہش کی خلاف ورزی کی۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی غیر ذمہ داری کا تذکرہ
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ارکان کو نکال کر فیصلہ دیا۔اس بنیاد پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘
’الیکشن کمیشن نے غلط طور پر پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈیکلیئر کیا۔پی ٹی آئی نے آزاد قرار دیے جانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج ہی نہیں کیا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ الیکشن کمیشن دوبارہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کرے۔‘
’اب پی ٹی آئی کے منتخب ارکان یا خود کو آزاد یا پی ٹی آئی ڈیکلیئر کریں، پی ٹی آئی ارکان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟
مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنائے گئے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمانی جماعت قرار دیا گیا ہے جس کے بعد یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا ب سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت رہے گی یا نہیں؟
تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزاد حامد رضا نے آزاد حیثیت میں انتحابات میں حصہ لیا اس لیے وہ مخصوص نشستیں لینے کے حقدار نہیں ہیں اور سنی اتحاد کونسل پارلیمانی جماعت نہیں ہے۔
اس بارے میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا خان نے اُردو نیوز کو بتایا اُن کی جماعت اب بھی پارلیمانی جماعت رہے گی۔ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے حوالے سے غلط بیانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ کا ردعمل
عدالت عظمیٰ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ دونوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
’انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی سیاسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا۔پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔‘
سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں تھا۔ چونکہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کے انتخابی نشان کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی اس لیے پشاور ہائی کورٹ کا بھی فیصلہ معطل کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ماہر قانون کامران مرتضیٰ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ لارجر بینچ نے کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے فیصلہ سب کی رائے اور تفصیلی غوروخوض کے بعد کیا گیا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ لارجر بینچ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کو اپیل دائر کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ اس لیے اس فیصلے کو ہی اٹل سمجھا جا رہا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان دوبارہ پاکستان تحریک انصاف میں جا سکیں گے یا نہیں۔ اس فیصلے کے بعد دیکھنا ہو گا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کیا ردعمل آتا ہے۔