Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر، بحران مزید سنگین ہورہا ہے

قطر ، ایران کی طرح موٹی جلد کا حامل نہیں جس پر کوئی جذبہ اثر انداز نہ ہو سکے، وہ لمبے عرصے تک قطع تعلق کامتحمل نہیں ہو سکتا
* * * عبدالرحمن الراشد* * *
اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ قطری حکومت نے دنیا کے بہترین فضائی عسکری لڑاکا جہاز خریدنے کے لئے معاہدے کئے ہیں جو اس کے پاس پہنچ جائیں گے ۔ گزشتہ برس نومبر میں اس نے ایف16 لڑا کاطیاروں کے بڑے بیڑے کی خریداری کا معاہدہ کیا جس سے اس کی فضائیہ کے پاس جدید ترین لڑاکا ایف 16جہازوں کی تعداد 72 تک پہنچ جائے گی جو ایک بڑااور اہم بیڑا شمار کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ قطر کے پاس فضائیہ کا بہت بڑا بیٹرا ہے جس میں جدید ترین انواع و اقسام کے لڑاکا ہوائی جہاز موجود ہیں تاہم اس حقیقت سے اسے انکار نہ ہو گا کہ اس کی فضائی حدود انتہائی مختصر ہے جن پر یہ جہاز اڑان بھر سکیں یا قطر کی فضائیہ اپنے نئے ہوا بازوں کو لڑا کا فضائی بیڑے میں شامل ان جدید ترین طیاروں کی عملی تربیت اپنی فضائی حدود میں دے سکے ۔ سعودی عرب کی جانب سے قطر کیلئے فضائی حدود کے استعمال پر پابندی اور بحرین کی جانب سے بھی یہی عمل دہرائے جانے کے بعد قطر کی فضائی حدود ان لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں کی عملی تربیت کیلئے ناکافی ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ انتہائی مختصر فضامیں انتہائی جدید ترین لڑا کا طیاروں کے ہوا باز کس طرح کھل کر عملی مظاہرے کی فنی تربیت حاصل کر سکتے ہیں جس کیلئے وسیع میدان اور فضائی حدود درکار ہوتی ہے جبکہ سعودی عرب ، بحرین اور پڑوسی ممالک کی جانب سے عائدبری اور فضائی سرحدی حدود کے استعمال پر پابندی عائد ہو نے کے بعد اب قطر کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ایران سے مدد مانگتے ہوئے اپنے فضائی بیڑے کے لئے نئے پائلٹوں کو عملی تربیت فراہم کرنے کیلئے ایران کی فضائی حدود مستعار لے یا کہیں اور دور کے علاقے میں جائے جہاں وہ اپنے جوانوں کو عملی تربیت فراہم کرے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قطرکو کسی جنگ کا سامنا نہیں بلکہ اس کے ساتھ سیاسی ، سماجی او ر معاشی تعلقات منقطع کئے گئے ہیں جن کیلئے اسے فضائی بیڑے کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ قطع تعلقات کے حوالے سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ دوحہ کی حکومت کی جانب سے ماضی قریب اور بعید میں جو کچھ کیا گیا اور ریموٹ کنٹرول اور ٹیلی فون کے سہار ے مختلف معرکوں کی قیادت کرنا اور وہاں کے امن عامہ میں مداخلت کرتے ہوئے ان ممالک کے داخلی امور کو تہ وبالا کیا گیا جس پر ماضی میں قطر کے ساتھ ہمیشہ برادرانہ رویہ رکھتے ہوئے بڑے بھائی کی عمل کے مطابق اس کی غلطیوں کو معافی دی گئی اس کے باوجود بھی وہ باز نہ آیا اور بالآخر سعودی عرب ، مصر، بحرین ، متحدہ عرب امارات کی حکومت نے جو قطر کے طرز عمل سے سخت پریشان ہی نہیں بلکہ نقصان اٹھا چکی تھی اس سے قطع تعلق کیا تو اس نے شور مچانا شروع کر دیا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی چیز بغیر قیمت کے نہیں ملا کرتی اس لئے قطر کو اب اپنی حرکتوں کی قیمت ادا کرکے کفارہ اداکرنا ہوگا کیونکہ ماضی میں اس نے ا ن پڑوسی حکومتوں کوجنہوں نے ہمیشہ اسے چھوٹے بھائی کا درجہ دیتے ہوئے دست شفقت سے نوازے رکھا مگر قطر کے حکمرانوں نے اس کی قدر نہ کی اور اغیار کے منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے ان ممالک کے خلوص کو ٹھکراتے ہوئے اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھیں۔ اب بھی اگر قطر کی جانب سے ہوش کے ناخن نہ لئے گئے اور اپنی گمراہ کارروائیوں سے باز نہ رہا گیا تو اسے اس کی قیمت چکانی ہو گی کیونکہ یہ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کے داخلی معاملات میں کسی کی مداخلت برداشت نہ کرے ۔ میری رائے ہے کہ قطر چند ماہ تک اپنی انگلیاں ہی کترتا رہے گا کیو نکہ وہ ایران کی طرح موٹی اور کھردری جلد کا حامل نہیں جس پر کوئی جذبہ اثر انداز نہ ہو سکے اس لئے میرے خیال میں قطر پڑوسی ملک خاص اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ تعلقات کافی عرصہ تک منقطع نہیں کرسکتا نہ ہی وہ اس کا لمبے عرصے تک متحمل ہو سکتا ہے ۔بالآخر وہ لوٹ آئے گا اور اسے وہ تمام دکانیں بند کرنا پڑیں گی جو اس کی سرمایہ کاری سے کھولی گئی ہیں
۔ ریاض اعلامیہ کے بعد متعدد ذرائع ابلاغ کے ا دارے بھی بند ہونگے جو گزشتہ 3 برسوںمیں کھولے گئے ہیں۔ اگرچہ دوحہ کو چند مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑ رہا ہے تاہم ان کے حل بھی موجود ہیں مثلاً دوحہ کی حکومت پھل اور سبزی یورپ جبکہ گوشت آسٹریلیا اسی طرح ڈیری مصنوعات ترکی سے درآمد کروا سکتی ہے جس کیلئے اسے بھاری رقوم ادا کرنا ہو نگی ۔ مذکورہ بالا مشکلات اور پریشانیوں کا حل تو پیسے سے ہو سکتا ہے مگر بعض ایسی پریشانیاں ہیں جن کا حل پیسے سے ممکن ہے اور نہ ہی ان کے حل کیلئے اسے بھاری بھرکم ٹرانسپورٹ یا دیگر ذرائع نقل وحمل درکار ہو نگے یہ مشکلات جن کا سامنا قطر کو کرنا پڑرہا ہے اور اس کے پاس اسکا کوئی حل بھی نہیں وہ ہے اپنی عوام اور وہاں مقیم لوگوں کو مطمئن کرنا کہ وہاں کچھ نہیں ہورہا ۔ قطر کو سب سے زیادہ پریشانی اپنے عوام اور مقیمین سے ہو رہی جن میں بے چینی اور اضطراب پھیلا ہو اہے اور جس معاشرے میں بے چینی پیدا ہو جائے اس کی مشکلات کو ختم کرنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔
قطر کے معاشرے کو جس اضطراب کا سامنا ہے اس کی وجہ سے وہاں کی معیشت یک دم متاثر ہو گی اور بڑی بڑی کمپنیاں وہاں سے نکلنے کیلئے پر تول رہی ہیں کیونکہ بے چینی کی حالت کا برا اثر کاروبار زندگی کو تہ و بالا کر دیتا ہے ۔ گزشتہ 2 ہفتوں سے قطری حکومت اپنے شہریوں سے دروغ گوئی کر تے ہوئے انہیں اس بات کا اطمینان دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ معاملات انکے قابو میں ہیں اور بہت جلد ہر چیز معمول پر آجائے گی ۔ اپنے جھوٹ کو مزید مدلل ثابت کرنے کے لئے قطرکی جانب سے امریکی بیانات میں جعل سازی کرکے اپنی عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان میں پائی جانے والی بے چینی کو کم کیا جاسکے۔ کچھ دن قبل ہی قطر کی جانب سے جھوٹی خبردی گئی تھی کہ امریکی فورسسز نے قطری فوج کے ساتھ مشترکہ مشقیں بھی کیں ۔
اس پرپینٹاگان نے اس بیان کی سخت الفاظ میں تردید بھی کی۔اب قطری عوام اور وہاں رہنے والوں کو بھی حقائق کا علم ہونے لگا ہے اور وہ اس بات سے واقف ہو رہے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں قصور وار قطری حکومت ہے جس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انہیں مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس معرکے میں انہیں صرف اور صرف پریشانیاں ہی ملیں گی کیونکہ اس سے قطری حکومت کو کچھ حاصل نہیں ہونے والا بلکہ اس کا خمیازہ عوام اور مقیمین کو ہی بھگتنا پڑے گا ۔ دوسری جانب جو حکومتیں قطری رویے سے نالاں ہیں وہ اس بات پر مصر ہیں کہ قطر کو اپنے عمل کی قیمت چکانی ہو گی ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دوحہ کی جانب سے کی جانے والی گمراہ کن کوششیں ناکام ہو گئی جو کچھ وہ سعودی عرب اور ابوظبی کے مابین کروانے کی کررہا تھا ۔ قطر کی جانب سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات بھی خراب کرنے کی کوشش کی گئی جس میں بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ جو کچھ قطر کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب اور چاروں عرب ممالک کیلئے کیا جارہا تھا اس کے الٹے اثرات برآمد ہونا شروع ہوگئے اس حوالے سے سب کی انگلیاں قطر اور اسکی حامی جماعتوں کی جانب اٹھی ہو ئی ہیں اور انکا مطالبہ پختہ ہو گیا ہے کہ قطر کی جانب سے وہ مطالبات پورے کئے جائیں جن کی وجہ سے اس کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ متعددایسے ممالک ہیں جو قطر کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی حمایت اعلانیہ طور پر نہیں کی مگر وہ بھی اس امر پر مکمل طور پر متفق ہیں کہ قطر نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا اور اسے اس کی سزا ملنی چاہئے ۔
دنیا کے بیشتر ممالک کی جانب سے قطر ی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کو اچھی نگا ہ سے نہیں دیکھا جارہا اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ جو کچھ قطر نے کیا وہ دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت اور تجاوز ہے ۔ اس کی جانب سے دہشتگرد تنظیموں اور وہ ممالک جو دشمنی میں ہر حد سے گزر جاتے ہیں مثلاً ایران کی پشت پناہی کرنا دراصل خطے کے امن و استحکام کو تہ و بالا کرنے کے مترادف ہے۔

شیئر: