Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تھائی لینڈ کی سیر کے لیے جانے والے تین پاکستانی میانمار میں پھنس گئے

سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی سندھ کے نوجوانوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
میانمار (برما) میں پھنسے تین پاکستانی شہریوں کی واپسی کا معاملہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ میانمار میں پاکستانی سفارت خانہ نوجوانوں کی واپسی کے لیے اقدامات کر رہا ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے نوجوانوں کی واپسی تاخیر کا شکار ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے تین نوجوان وزٹ ویزا لے کر تھائی لینڈ گئے تھے جہاں سے انہیں ایک ایجنٹ نے نوکری کا جھانسہ دے کر میانمار کے شہر یانگون میں ایک کمپنی کے حوالے کیا۔ 
نوجوانوں نے گھر والوں کو بتایا ہے کہ ان سے سخت مشقت کرائی جا رہی ہے اور ان کے پاسپورٹ اور موبائل فون سمیت دیگر سامان بھی چھین لیا گیا ہے۔  
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی سندھ کے نوجوانوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
میانمار میں پھنسے حیدر آباد کے رہائشی کاشف حسین کے والد عاشق حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کا بیٹا اور اس کے دو دوست گھر سے یہ کہہ کر تھائی لینڈ روانہ ہوئے تھے کہ وہ سیر و تفریح کے لیے جا رہے ہیں۔
’کراچی ایئر پورٹ سے گھر فون کرکے بتایا کہ وہ اب تھائی لینڈ کے لیے جہاز میں بیٹھنے جا رہے ہیں۔ پاکستان سے تھائی لینڈ پہنچنے پر تینوں نوجوان بہت خوش تھے، پھر ایک روز کاشف نے بتایا کہ ایک پاکستانی شہری سے ان کی ملاقات ہوئی ہے جو برسوں سے وہاں رہائش پذیر ہے۔ اور باہر سے آنے والوں کے لیے یہاں روزگار کا انتظام کرتا ہے۔‘
عاشق حسین کے مطابق کچھ روز بعد کاشف نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ اس کی نوکری کا انتظام ہو گیا ہے، وہ تھائی لینڈ کے سرحدی علاقے سے متصل ایک کمپنی میں کام کرنے جا رہا ہے۔
’کچھ دن بعد بیٹے نے فون کرنا چھوڑ دیا، پھر ایک دن نامعلوم نمبر سے فون آیا اور کاشف نے بتایا کہ وہ اور اس کے دوست میانمار کے ایک جنگ زدہ علاقے میں پھنس گئے ہیں۔ انہیں نوکری کا جھانسہ دے کر ایک کمپنی میں بھیجا گیا ہے جہاں ان سے ان کے پاسپورٹ اور موبائل فون سمیت دیگر سامان چھین لیا گیا ہے۔‘ 
کاشف حسین کے والد کے مطابق اُن کے بیٹے نے بتایا کہ ’سخت مشقت والا کام لیا جا رہا ہے، اور انکار پر ملازموں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
تینوں لڑکوں کے اہلخانہ نے موجودہ صورتحال سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے بچوں کو وطن واپس لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
میانمار میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے عملے سے نوجوانوں کے اہلخانہ نے رابطہ کیا ہے۔ عاشق حسین کے مطابق سفارتی عملے نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے بچوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
سفارتی عملے نے اہلخانہ کو مزید بتایا کہ اس سے قبل بھی اس نوعیت کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ انہیں بھی حل کیا گیا ہے اور جلد ہی اس معاملے کو بھی حل کر لیا جائے گا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) کے انسداد انسانی سمگلنگ سیل کے سابق افسر محمد علی کے مطابق پاکستان سے غیر قانونی طریقوں سے بیرون ممالک جانے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس میں کچھ لوگ کسی بھی ایک ملک کا ویزا لے کر وہاں جاتے ہیں اور پھر لوکل ایجنٹس کے ہاتھ لگ کر زمینی اور بحری راستے دوسرے ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
’یہ ایک غیرقانونی اور خطرناک سفر ہوتا ہے، اس میں کئی افراد جاتے جاتے اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور کئی منزل پر پہنچ کر غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے نے سندھ کے حیدر آباد سے کچھ فاصلے پر موجود شہر میرپور خاص سے ایسے افراد کو حراست میں لیا تھا جو لوگوں کو روزگار کے حصول کے لیے غیر قانونی طور پر اسرائیل سمیت دیگر ممالک بھیج رہے تھے۔

شیئر: