Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جے آر ڈی ٹاٹا ایک عہد کا نام، آخری سانس تک اپنے اصولوں پر قائم رہے

جے آر ڈی ٹاٹا شہری ہوابازی کا لائسنس حاصل کرنے والے پہلے انڈین تھے (فوٹو: ٹاٹا گروپ)
یہ 19ویں صدی کے اوآخر کا قصہ ہے۔ برطانوی راج ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر چکا تھا۔ ممبئی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور کراچی فی الحال ایک چھوٹا سا ساحلی قصبہ تھا۔
انڈین ریاست گجرات کے شہر نوساری کے جمشید نے کام کی تلاش میں ممبئی کا رُخ کیا تو وہ بڑے شہر کے سحر میں کھو سا گیا۔
جمشید ایک روز جہاں گردی کر رہا تھا، کچھ نیا تلاش کرنے کی جستجو اس کو شہر کے ایک فائیو سٹار ہوٹل لے گئی مگر اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا کیوں کہ وہ مقامی تھا اور ہوٹل میں صرف انگریزوں کو جانے کی اجازت تھی۔ انہوں نے اس روز اس سے بہتر ہوٹل بنانے کا خواب دیکھا اور چند ہی برسوں میں وہ تاج محل ہوٹل بنا کر اپنے اس خواب کی تعبیر پا چکے تھے۔
یہ کہانی جمشید جی ٹاٹا کی ہے۔ وہ انڈیا کے معروف ترین کاروباری خاندان ٹاٹا کے بانی تھے اور انہوں نے ایک ایسی کاروباری سلطنت کی بنیاد رکھی جس کی مجموعی مالیت اس وقت پاکستان کے جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ آپ چونک گئے تو عرض کیے دیتے ہیں کہ رواں سال فروری میں ٹاٹا گروپ کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن تقریباً 365 ارب ڈالر تھی جبکہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے جی ڈی پی کا تخمینہ 341 ارب ڈالر لگایا گیا تھا اور یہ انڈیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔
آپ کے ذہنوں میں اگر (مکیش) امبانی یا (گوتم) اڈانی کا نام آ رہا ہے تو وہ شخصیات ہیں اور ٹاٹا ایک گروپ کے طور پر ریلائنس اور اڈانی دونوں سے بڑا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹاٹا خاندان کی طرح امبانی اور اڈانی بھی انڈین ریاست گجرات سے ہیں۔
جمشید جی ٹاٹا کے کزن رتن جی بھائی ٹاٹا کا شمار اس خاندان کے بانیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس کاروباری سلطنت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا افیون کی تجارت میں نمایاں مقام تھا جس پر اس وقت قانونی طور پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی اور انہوں نے جمشید ٹاٹا کے صاحب زادے دوراب جی کے ساتھ مل کر جمشید پور میں ٹاٹا سٹیل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
ٹاٹا گروپ کے طویل عرصہ تک چیئرمین رہنے والے جے آر ڈی ٹاٹا یا جہانگیر رتن جی دادا بھائی ٹاٹا انہی کے فرزند تھے جو آج ہی کے روز 1904 میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ سونی فرانسیسی نژاد تھیں اور وہ انڈیا میں کار ڈرائیو کرنے والی اولین خاتون تھیں جنہوں نے سال 1905 میں یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ ان کی ایک بیٹی سائلا ٹاٹا یعنی جے آر ڈی ٹاٹا کی بہن کی شادی ڈنشا مانک جی پٹیٹ سے ہوئی تھی جو رَتی جناح کے بھائی تھے۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک قصہ گوش گزار کر لیجیے:
دلیپ کمار کا ایک عہد مداح تھا۔ وہ کروڑوں دلوں کی ڈھرکن تھے مگر ایک بار ایک فضائی سفر کے دوران ان کو ایک ساتھی مسافر نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔
کہتے ہیں دلیپ جی جب جہاز پر سوار ہوئے تو ہر کوئی ان پر فدا ہونے کے لیے تیار تھا۔ لیکن ایک مسافر اس تمام ہنگامہ خیزی سے بے نیاز تھا۔

دلیپ جی کو احساس ہوا کہ آپ جتنے بھی بڑے ہو جائیں، آپ سے بھی قد آور شخصیات معاشرے میں موجود ہوتی ہیں (فوٹو: ناؤ ہندو)

دلیپ صاحب نے ان موصوف پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور سلام دعا کے بعد بات چیت شروع ہوئی تو ساتھی مسافر نے استفسار کیا،
’کیا کرتے ہیں آپ؟‘
انہوں نے حیرانی سے جواب دیا،
’اداکاری کرتا ہوں۔‘
تو وہ صاحب بولے، ’ارے واہ، بہت اچھا۔‘
دونوں خاموش ہو گئے۔ پرواز منزل پر پہنچی تو دلیپ جی نے ساتھی مسافر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ’میں دلیپ کمار ہوں۔‘
 ان کے اس جملے پر وہ موصوف حیران نہیں ہوئے بلکہ بیزاری اور اکتاہٹ سے گویا ہوئے،
’میرا نام جے آر ڈی ٹاٹا ہے۔‘
کہتے ہیں اس وقت دلیپ جی کو احساس ہوا کہ آپ جتنے بھی بڑے ہو جائیں، آپ سے بھی قد آور شخصیات معاشرے میں موجود ہوتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ واقعہ امیتابھ جی کے حوالے سے بھی بیان کیا جاتا ہے، جس میں فرق صرف یہ ہے کہ اس میں دلیپ کمار کی جگہ امیتابھ بچن ہیں۔

جے آر ڈی ٹاٹا نے سال 1925 میں ٹاٹا گروپ میں اپرنٹس کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی (فوٹو: ٹاٹا گروپ)

کہانی کا پلاٹ ہوبہو ایک ہی ہے۔ اس واقعہ کی صداقت میں جائے بغیر آگے بڑھتے ہیں اور کچھ بات کرتے ہیں جے آر ڈی ٹاٹا کی. ان کی والدہ انڈیا کی سڑکوں پر گاڑی ڈرائیو کرنے والی اگر پہلی خاتون تھیں تو وہ 10 فروری 1929 کو شہری ہوابازی کا لائسنس حاصل کرنے والے پہلے انڈین تھے اور لائسنس کا نمبر ایک تھا جس پر فخر محسوس کیا کرتے تھے، یہ شوق ان میں اپنے والد کے دوست لوئی بلو رائیٹ سے ملنے کے بعد پیدا ہوا۔
وہ ایسے پہلے پائلٹ تھے جنہوں نے رودبار انگلینڈ کے اس پار پرواز کی تھی اور جلد ہی سال 1932 میں انہوں نے امپیریل ایئرویز سے ڈاک لے جانے کا معاہدہ کیا اور اسی برس اکتوبر میں انہوں نے کراچی سے ممبئی کے لیے پرواز بھری جہاں سے نیوائل ونسنٹ طیارے کو مدراس (چنئی) لے کر گئے جو جنوبی افریقہ کے ٹیسٹ کرکٹر چارلس ونسنٹ کے صاحب زادے تھے۔ یہ ٹاٹا ایئرلائنز کا آغاز تھا، سال 1946 میں اس کا نام ایئر انڈیا رکھ دیا گیا  جسے آزادی کے بعد حکومت نے قومیا لیا۔
جے آر ڈی کے لیے حکومت کا ایئرانڈیا کو قومیانے کا فیصلہ قبول کرنا آسان نہیں تھا جنہوں نے اس فیصلے کی کھل کر مزاحمت کی مگر وہ حکومتی فیصلے کو بدلنے میں ناکام رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈین حکومت نے ایئرانڈیا کی نیشنلائزیشن کے بعد جے آر ڈی ٹاٹا کو اس کا چیئرمین بنانے کے علاوہ انڈین ایئرلائنز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی شامل کیا۔ وہ 25 سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جے آر ڈی ٹاٹا انڈیا میں فادر آف سول ایوی ایشن کے طور پر تو جانے ہی جاتے ہیں بلکہ انڈین حکومت کی جانب انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں ایئرکموڈور آف انڈیا کا اعزازی عہدہ بھی دیا گیا۔
ایئرانڈیا کا حال بھی پاکستان کی پرچم بردار ایئرلائن پی آئی اے سے کچھ مختلف نہیں ہوا جسے فروخت کرنے کے لیے انڈین حکومت نے ہر کوشش کی مگر کوئی گاہک نہیں مل سکا اور سال 2021 میں یہ کمپنی ٹاٹا گروپ کو واپس مل گئی جو اس سے قبل سنگاپور ایئرلائنز کی شراکت سے ایئروٹارا اور ملائشیا کی ایئرایشیا میں شراکت دار ہے۔
بات جے آر ڈی ٹاٹا کی ہو رہی تھی جنہوں نے سال 1925 میں ٹاٹا گروپ میں اپرنٹس کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔ اور سال 1938 میں وہ ٹاٹا سنز کے چیئرمین منتخب ہو گئے جو انڈیا کا سب سے بڑا صنعتی گروپ تھا اور وہ اس عہدے پر اگلے 53 برس تک تعینات رہے۔ انہوں نے یوں جمشید ٹاٹا سے بھی زیادہ وقت کمپنی کے سربراہ کے طور پر گزارا۔
ٹاٹا گروپ کا چیئرمین بننے سے کچھ برس قبل جے آر ڈی ٹاٹا ممبئی کی میرین ڈرائیو پر اپنی گاڑی تیزی سے بھگا رہے تھے جس پر انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ مقدمہ تو وہ جیت ہی گئے مگر اپنے ہی وکیل کی بھتیجی تھیلما وساچی کی زلفوں اسیر ہو گئے اور دونوں جلد ہی رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے۔
ان کی منگنی اس سے قبل دِن بھائی مہتا سے ہوئی تھی جو ٹوٹ گئی تھی۔ برطانوی ہفت روزہ میگزین اکانومسٹ کے سابق مدیر شاپور کھیرگٹ انہی کے صاحب زادے تھے۔

ٹاٹا موٹرز کے علاوہ ٹاٹا کنسلٹنسی بھی انہی کے دور میں شروع ہوئی (فوٹو: ٹاٹا گروپ)

جے آر ڈی ٹاٹا نے جب کمپنی کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت اس کے اثاثے 10 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ تھے اور 14 مختلف کمپنیاں کام کر رہی تھیں۔ یہ ان کی ویژنری قیادت ہی تھی کہ انہوں نے جب گروپ کی قیادت چھوڑی تو اس کے اثاثے پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے تھے جب کہ 95 مختلف کمپنیاں ٹاٹا گروپ کے تحت کام کر رہی تھیں۔
جے آر ڈی ٹاٹا نے اس وقت اپنی کمپنی میں ایسے اصول لاگو کیے جو ازاں بعد انڈیا کا قانون بن گئے جن میں آٹھ گھنٹوں کی ملازمت، بلامعاوضہ طبی امداد، پروویڈنٹ سکیم اور حادثے کی صورت میں مزدور کی مالی اعانت وغیرہ شامل ہیں۔
ٹاٹا موٹرز کے علاوہ ٹاٹا کنسلٹنسی بھی انہی کے دور میں شروع ہوئی جس کی مالیت اس وقت 170 ارب ڈالر ہے اور یہ انڈیا کی دوسری سب سے بڑی کمپنی ہے۔
انہوں نے سال 1968 میں جب یہ کاروبار شروع کیا تو انڈیا جیسے ملک کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا اور اس وقت تک ترقی یافتہ ملکوں تک محدود تھا جیسا کہ یہ کمپیوٹر سے متعلق تھا۔ یہ کمپنی دنیا بھر میں سافٹ ویئر فراہم کرتی ہے اور ٹاٹا گروپ کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
انڈین اخبار ’منٹ‘ اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے کہ ’ان (جے آر ڈی ٹاٹا) کی کاروباری میدان میں کامیابیوں سے ہٹ کر وہ سماجی فلاح کے لیے بھی یکسو تھے۔ وہ سماج کے لیے کام کرنے کے حوالے سے گہرا یقین رکھتے تھے اور انہوں نے مختلف فلاحی سرگرمیوں میں متحرک کردار ادا کیا۔ انہوں نے بہت سے خیراتی ادارے قائم کیے جو اب بھی تعلیم، صحت اور دیہی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں جن میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز اور ٹاٹا میموریل ہسپتال ان کی فلاحی سرگرمیوں کے گواہ ہیں جو لاتعداد لوگوں کو تعلیم اور صحت کی اعلیٰ سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔‘
جے آر ڈی ٹاٹا اگرچہ ہمیشہ میڈیا سے دور رہے مگر ان کا سال 1975 میں اندرا گاندھی کی جانب سے ایمرجنسی لگانے کے فیصلے کی حمایت کرنے کا بیان ایسا متنازع ہوا کہ اس کا آج بھی حوالہ دیا جاتا ہے، انہوں نے ’ٹائمز‘ کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ آپ تصور نہیں کرسکتے، ہم کن حالات سے گزرے رہے، روز ہڑتالیں، بائیکاٹ اور احتجاجی مظاہرے ہوتے۔ ایسے بھی دن آئے جب میرے لیے گھر سے باہر گلیوں میں چہل قدمی کرنا مشکل ہو گیا۔ پارلیمانی نظام ہماری ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔‘

جے آر ڈی ٹاٹا سال 1991 میں ٹاٹا گروپ کی سربراہی سے الگ ہوئے تو رتن ٹاٹا چیئرمین منتخب ہوئے (فوٹو: ٹاٹا گروپ)

جے آر ڈی ٹاٹا سال 1991 میں ٹاٹا گروپ کی سربراہی سے الگ ہوئے تو رتن ٹاٹا چیئرمین منتخب ہوئے۔ وہ جمشید ٹاٹا کے پڑپوتے ہیں۔ ان کے والد نیول ٹاٹا رتن ٹاٹا کے لے پالک بیٹے تھے۔
نیول ٹاٹا کبھی اپنا ماضی نہیں بھولے اور ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ ’میں خدا کا شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے غربت میں زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا، جس نے آنے والے برسوں میں کسی بھی چیز سے زیادہ میری شخصیت کو بنانے میں کردار ادا کیا۔‘
جے آر ڈی ٹاٹا کو سال 1992 میں انڈیا کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا۔ وہ انڈیا کی 77 سال پر محیط تاریخ میں یہ اعزاز حاصل کرنے والی واحد کاروباری شخصیت ہیں۔ 
وہ برملا کہا کرتے تھے کہ ’میں بھارت کو ایک معاشی سپرپاور کے طور پر نہیں بلکہ ایک خوش ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا ہوں۔‘
انہوں نے متعدد فلاحی ادارے قائم کر کے یہ مقصد پورا کرنے کی جانب اپنی پیشرفت جاری رکھی اور اپنی وفات تک اس حوالے سے سرگرم رہے۔
جے آر ڈی ٹاٹا 29 نومبر 1993 کو سوئٹررلینڈ کے شہر جنیوا میں گردوں میں انفیکشن ہونے کے باعث چل بسے۔ ان کی عمر اس وقت 89 برس تھی۔ انہوں نے موت سے چند روز قبل کہا تھا کہ ’مرنا کتنا خوش کن ہے۔‘
جے آر ڈی ٹاٹا ایک عہد کا نام تھے، انہوں نے کاروباری اصولوں پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا اور آخری سانسوں تک اپنے قائم کیے گئے اصولوں پر قائم رہے جس کے باعث ہی ٹاٹا گروپ کا شمار آج دنیا کے چند بڑے کاروباری اداروں میں ہوتا ہے۔

شیئر: