مریم نواز سمیت کسی ایک بھی لیگی رہنما کی جانب سے ویڈیو یا تحریری بیان جاری نہیں کیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ 28 جولائی 2017 اور جمعہ کا دن تھا۔ وزیراعظم ہاؤس میں سرکردہ لیگی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی جو ایک ہال میں ٹیلی ویژن سکرینوں پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے۔
اس ہال سے آگے ایک کمرے میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے انتہائی قریبی رفقاء موجود تھے۔ یہ تمام لوگ کئی ماہ سے سپریم کورٹ میں جاری پانامہ کیس کا فیصلہ سننے کے لیے موجود تھے۔
جوں جوں فیصلے کا وقت قریب آ رہا تھا وہاں موجود افراد کے چہرے کے تاثرات بدل رہے تھے اور رنگ اڑنے لگے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جس انداز سے یہ کیس آگے بڑھا تھا، ان میں اکثریت کو فیصلہ نواز شریف کے حق میں آنے کی امید نہیں تھی۔
دوپہر کے وقت فیصلہ آیا اور سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جس کے بعد نواز شریف اور ان کی جماعت نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ اپناتے ہوئے ملک گیر مہم چلائی۔
پہلے مرحلے میں نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور تک مارچ کیا اور مشہور زمانہ سوال ’مجھے کیوں نکالا؟‘ اٹھایا۔
اس بیانیے کی بنیاد پر مسلم لیگ ن نے کئی ضمنی انتخابات جیتے۔ اس دوران لاہور میں نواز شریف کی خالی ہونے والی نشست پر کلثوم نواز این اے 120 سے کامیاب ہوئی تھیں۔ وہ بیماری کے باعث انتخابی مہم بھی خود نہیں چلا سکی تھیں اور کامیابی کے بعد حلف بھی نہیں اٹھا سکیں تھیں۔
سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کی بنیاد پر نواز شریف، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر پر ریفرنسز بنے۔
نواز شریف کو دو بار جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ایک بار قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ حسن نواز اور حسین نواز اشتہاری قرار پائے۔
فروری 2024 کے انتخابات تک مسلم لیگ ن یہی بیانیہ اپنائے رہی کہ ’2017 میں نواز شریف کو نہ نکالا جاتا تو ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھا، سرمایہ کاری آ رہی تھی، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کم ہو رہی تھیں اور دنیا سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے تھے وغیرہ وغیرہ لیکن سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے سب کچھ درہم برہم کر دیا۔‘
انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن کی حکومت نے اسی فیصلے کو بنیاد پر پوری انتخابی مہم چلائی اور ’پاکستان کو نواز دو‘ کے نعرے پر انتخاب لڑا۔
انتخابات اگرچہ نواز شریف وزیراعظم تو نہ بن سکے لیکن ان کے بھائی شہباز شریف ایک بار پھر پاکستان کے وزیراعظم بن گئے اور اسی عرصے کے دوران نواز شریف اپنی جماعت کے صدر منتخب ہو گئے۔
عموماً گزشتہ چھ برس میں جب جب بھی 28 جولائی کا دن آیا مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کی حد تک ہی سہی اسے ’یوم سیاہ‘ قرار دیتی تھی اور اس کے پیچھے سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا۔
لیکن اب جب حکومت مسلم لیگ ن کے پاس ہے۔ پانامہ فیصلے کے نتیجے میں بننے والے ریفرنس میں سزا پانے والی نواز شریف کی بیٹی مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب ہیں اور ان کے بھائی وزیراعظم ہیں۔
ایسے میں 28 جولائی آیا اور اتنی خاموشی سے گزر گیا کہ مریم نواز سمیت کسی ایک بھی لیگی رہنما کی جانب سے ویڈیو یا تحریری بیان تو درکنار ایک ٹویٹ تک نہیں کی گئی۔
اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے صرف دو رہنماؤں کی جانب سے ایکس پر پوسٹ کی گئی جن میں وفاقی وزیر احسن اقبال اور سینیٹر عرفان صدیقی شامل ہیں۔
اپنی پوسٹ میں احسن اقبال نے لکھا کہ ’7 برس پہلے 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے ایک سازش کے تحت منتخب وزیراعظم نواز شریف کو سیاسی فیصلے سے نااہل کر کے پاکستان سے ترقی کے سفر کو چھین کر ایک اناڑی، اناپسند اور ضدی لیڈر کو برسراقتدار لانے کی راہ ہموار کی چونکہ وہ سیاست کے میدان میں پٹ چکا تھا اور صرف سازش کے چور دروازے سے ہی اقتدار میں آ سکتا تھا۔ آج کا دن پاکستان اور عدلیہ کی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ دن کے طور پہ یاد رکھا جائے گا اور اس سازش کے کرداروں نے پاکستان کے عوام کو جس بحران میں دھکیلا اس کی قیمت آج بجلی کے بلوں، مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں وہ ادا کر رہی ہے۔‘
اسی طرح سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’سات سال پہلے آج ہی کے دن 28 جولائی کو دو تہائی اکثریت رکھنے والے منتخب وزیراعظم، محمد نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں منصب سے ہٹا کر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ تب ترقی کی شرح 6.3 اور مہنگائی 3 فی صد تھی، لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی تھی، دہشت گردی کا سر کچلا جا چکا تھا، آئی ایم ایف کو الوداع کہہ دیا گیا تھا، سی پیک کی شکل میں 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ رہی تھی، تمام عالمی ادارے پاکستان کے شاندار معاشی مستقبل کی نوید دے رہے تھے، پاکستان عالمی برادری میں سر اٹھا کر کھڑا تھا۔ تب ایک منصوبے کے تحت ہنستے بستے، ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھتے پاکستان کو پستی کی کھائی میں دھکیل دیا گیا۔ 25 کروڑ عوام مسلسل اس کی سزا بھگت رہے ہیں اور منصوبہ ساز محاسبے کے خوف سے آزاد اپنے پرتعیش گھروں میں بیٹھے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔شاید ہی کسی کے ضمیر میں ندامت کی ہلکی سی خلش بھی ہو۔‘
اس دن مسلم لیگ ن کی جانب سے سرکاری طور پر کوئی بیان تک جاری نہیں کیا گیا جبکہ پارٹی کی سطح پر کوئی تقریب، سیمینار یا پریس کانفرنس تک نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے جب پارٹی رہنماؤں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر تبصرے سے گریز کیا۔
تاہم جب اس حوالے سے سینیٹر عرفان صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا ’میں نے صبح اٹھنے کے بعد پارٹی رہنماؤں اور ذمہ داروں سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ آج کے دن نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی تھی تو کیا اس حوالے سے کوئی پروگرام یا سیمینار ہے؟ جس پر مجھے نفی میں جواب ملا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے انتطار کیا کہ پارٹی کی جانب سے آج کے دن کے حوالے سے کوئی ہدایت ملے گی کوئی اعلامیہ آئے گا کوئی بیانیہ آئے گا لیکن اس طرف سے بھی مکمل خاموشی رہی جس کے بعد میں نے ایک ٹویٹ کر دی۔ جس میں مجھے جو حقیقت لگا بیان کیا۔‘
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’مجھے یہ دن اس لیے بھی یاد تھا کہ جس دن یہ فیصلہ آیا تھا میں اس وقت دو چار لوگوں کے ساتھ نواز شریف کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا اور جب فیصلہ سنایا گیا تو نواز شریف نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عرفان صاحب! دیکھ لیں ہمارے جج اس حد تک بھی جا سکتے ہیں‘ جس کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ آپ پریس ریلیز جاری کر دیں کہ ہم اس فیصلے کو اگرچہ درست نہیں سمجھتے لیکن قبول کرتے ہوئے میں سبکدوش ہو رہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسا دن تھا کہ جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں لیکن جب کوئی جماعت اپنے ساتھ اور اس ملک کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو بھول جاتی ہے تو پھر عوامی رائے عامہ بھی اس کے ساتھ نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ آج کوئی بیانیہ نہیں بنا رہی جبکہ ان کے پاس قوم کو بتانے کو بہت کچھ ہے جبکہ دوسرے چھوٹی سے چھوٹی بات کو لے کر بیانیہ بناتے ہیں اور آپ کے لیے مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہیں۔‘