مرکز اور پنجاب میں حکومت کے باوجود نواز شریف کی گوشہ نشینی کا مطلب کیا ہے؟
مرکز اور پنجاب میں حکومت کے باوجود نواز شریف کی گوشہ نشینی کا مطلب کیا ہے؟
جمعہ 12 جولائی 2024 7:20
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
بجٹ پر شور شرابے کے بعد نواز شریف منظر سے غائب ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں اقتدار اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس ہے۔ وفاق میں شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو پنجاب میں مریم نواز وزیراعلٰی ہیں۔ کہا جاتا ہے جس کے پاس پنجاب ہوتا ہے حکومت اسی کی ہوتی ہے، اس لحاظ سے تو مسلم لیگ ن اقتدار کے ساتویں آسمان پر ہے۔
لیکن اقتدار ایسا ہے جس کو لے کر بھی شاید پارٹی کے سربراہ نواز شریف خوش دکھائی نہیں دیتے۔ یہ تاثر اس لیے بھی قائم ہے کہ وہ سیاسی منظر نامے سے یکسر غائب ہو جاتے ہیں۔
چند ماہ قبل وہ تھوڑے متحرک ہوئے، پنجاب میں مریم نواز کے ہمراہ اجلاسوں میں بھی بیٹھے اور آخری سیاسی تقریب میں بھی شامل ہوئے جب انہیں 28 مئی کو پارٹی کا صدر دوبارہ منتخب کیا گیا تھا۔
سیاسی ماہرین اندازے لگا رہے تھے کہ نواز شریف صدر بننے کے بعد اب متحرک ہوں گے اور ایسا ہوا بھی۔ ایسی خبریں بھی چلیں کہ جاتی امرا میں اجلاسوں کی صدارت نواز شریف کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بجٹ کا غلغلا ہوا اور نواز شریف بالکل ہی منظر سے غائب ہو گئے۔
بدھ کو ہونے والے وفاقی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی وہ نظر نہیں آئے۔ البتہ جمعرات کو جب مریم نواز نوجوان طالب علموں میں بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کی چابیاں تقسیم کر رہی تھیں تو انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ یہ سارے کام نواز شریف کی راہنمائی میں کر رہی ہیں۔
ایسے میں سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ نواز شریف کی مستقل گوشہ نشینی کی آخر وجہ کیا ہے؟
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ ملکی سیاسی اور معاشی حالات میں فی الحال نواز شریف کیا ہی کردار ادا سکتے ہیں۔
لیگی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں انہوں نے ایک دفعہ پنجاب کے وزیراعلٰی اپنے بھائی شہباز شریف کو کہا تھا کہ حکومتیں لینے کے لیے نہیں دینے کے لیے ہوتی ہیں۔ مگر اب اس کا الٹ ہے۔ اور نواز شریف نے کئی دہائیاں پہلے اس طرز کی اپنی سیاست ختم کر دی تھی۔‘
نواز شریف، مریم نواز کے ہمراہ اجلاسوں میں بیٹھتے رہے ہیں لیکن حالیہ وفاقی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں نظر نہیں آئے۔ فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’نواز شریف جب 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئے تھے تو انہوں نے بجلی کا بل لہرا کر کہا تھا کہ لوگوں کی سکت یہ ادا کرنے کی نہیں ہے۔ اب تو بل اس وقت سے بھی دو گنا ہو چکے ہیں۔ جب ایک ایم این اے یا ایم پی اے عوام کا اس وقت سامنا نہیں کر سکتے تو نواز شریف کیسے کریں گے۔‘
’میرا خیال ہے جب تک یہ سسٹم ایسے چلتا رہے گا تو نواز شریف گوشہ نشین ہی رہیں گے۔ مسلم لیگ ن کی موجودہ سیاست نواز شریف کی سیاست سے متصادم ہے اور خود ان کے پاس بھی اس صورت حال کا واضح حل نہیں ہے۔‘
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی اپنی سیاسی مشکلات سے متعلق وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں ایک مرتبہ پھر کہا کہ ان کی جماعت نے اپنا سیاسی سرمایہ ملکی حالات بہتر کرنے کی خاطر جھونک دیا ہے۔ ان کا اشارہ مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے عوامی رد عمل کی طرف تھا۔
کم و بیش یہی خیالات تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف موجودہ سیاسی صورت حال میں نہ تو بجلی کے بل کم کروا سکتے ہیں اور نہ ٹیکسوں میں کمی۔ تو اس وقت کوئی بھی بیانیہ بنانے کی ان کی گنجائش نہیں ہے اس لیے ان کی سیاست سست روی کا شکار ہے۔ البتہ انہوں نے پارٹی کی صدارت لے کر اپنی پارٹی کی مستقبل کی سیاست کی کچھ پیش بندی بھی کی ہے۔‘