Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بورڈ اجلاسوں میں شرکت کی فیس، سرکاری افسران سالانہ 10 لاکھ ہی لے سکیں گے

سرکاری ملازمین کسی بھی کمپنی کے بورڈ میں شرکت پر لی گئی فیس میں سے صرف دس لاکھ روپے رکھ سکیں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
12 جون 2024 کی بات ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بجٹ تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ اس دوران وزیراعظم کے دماغ میں سوال آیا اور انھوں نے وہاں بیٹھے وزارت خزانہ کے افسران سے پوچھ لیا کہ ریاست کے ملکیتی اداروں کے بورڈ میں جو سرکاری افسران بطور رکن شامل ہوتے ہیں کیا وہ فیس کی مد میں بے تحاشا پیسے کماتے ہیں؟
جس کے جواب میں وزارت خزانہ کے افسران نے بتایا کہ بالکل ایسا ہی ہے۔ صرف پارکو کے اجلاس میں شرکت کے لیے سیکریٹری پاور کو ہر اجلاس کے پانچ ہزار ڈالر ملتے ہیں جوکہ 14 لاکھ روپے مل رہے ہیں۔
کابینہ نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ ’وہ تمام سرکاری افسران جنھیں کمپنیوں یا اداروں میں بطور رکن تعینات کیا جائے گا وہ پورے سال کے دوران اپنی تنخواہ کے علاوہ صرف دس لاکھ روپے اپنے پاس رکھ سکیں گے اور باقی رقم انھیں قومی خزانے میں جمع کروانی پڑے گی۔‘
ذرائع کے مطابق ’کابینہ نے یہ فیصلہ کیا لیکن اس کے بعد بجٹ اجلاس میں مصروفیت کے نام پر اعلیٰ بیوروکریسی نے اس فیصلے کو بھلا دینا ہی مناسب سمجھا لیکن وزیراعظم نے اپنی اس ڈائریکشن کو یاد رکھا۔‘
’چند روز قبل انھوں نے سیکرٹری خزانہ سے بلا کر پوچھا کہ ان ہدایات کا کیا بنا جس کے بعد انھوں نے آئیں بائیں شائیں کی لیکن وزیراعظم نے اس پر سختی سے عمل در آمد کی ہدایات کر دی ہے۔‘
جس کے بعد وزارت خزانہ نے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں کابینہ اجلاس کے فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’وہ تمام سرکاری ملازمین جنھیں کمپنیوں یا اداروں میں بورڈز کا رکن تعینات کیا جائے گا اور وہ بورڈ فیس اور دیگر مراعات حاصل کرنے کے حقدار ہوتے ہیں، اس میں سے وہ صرف دس لاکھ روپے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔‘
سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ’دس لاکھ سے زائد جتنی رقم بھی سرکاری افسران کو ملے گی وہ قومی خزانے میں جمع کرانے کے پابند ہوں گے۔ یہ رقم جمع کروانے کے بعد افسران اپنے ادارے میں رسید بھی جمع کروانے کے پابند ہوں گے۔‘
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیا گیا سرکلر فوری طور پر نافذالعمل کیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ سرکاری ملازمین اضافی رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کے پابند ہوں گے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس معاملے پر کچھ سرکاری افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اکثر سرکاری ملازمین اپنی لابنگ کے ذریعے ان بورڈز میں اپنی تقرری کرواتے تھے۔ اس تقرری کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ایک میٹنگ میں شرکت کے اتنے پیسے ملتے ہیں کہ سرکاری افسران کی اپنی تنخواہ سے اس سے کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ ممبران کی ملی بھگت سے ہر ہفتے اجلاس کیے جاتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم کمائی جا سکے۔ اس طرح یہ افسران اپنی وزارت کا کام بھی پوری طرح سے نہیں کر پاتے تھے اور ان کا بوجھ ان سے نیچے کے افسران کو اٹھانا پڑتا تھا۔
ان سرکاری افسران کے مطابق ’پارکو کے ایک اجلاس کی فیس پانچ ہزار ڈالر ہے جبکہ پی ٹی سی ایل بورڈ کے اجلاس کی فیس ساڑھے تین ہزار ڈالر ہے جبکہ دیگر کئی اداروں کے بورڈ کے ایک اجلاس کی فیس دو لاکھ سے چھ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔‘
حکام کے مطابق ’بیوروکریسی نے سروس رولز میں گنجائش رکھی ہے کہ ایک افسر بیک وقت پانچ بورڈز کا رکن بن سکتا ہے۔ اس طرح مہینے میں 22 ورکنگ دنوں میں سے 12 سے 15 دن تو بورڈ کے اجلاسوں میں لگ جاتے ہیں جبکہ باقی دن وہ اپنی وزارت کو دیتے تھے جس وجہ سے وزارتوں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کئی افسران کو بروقت ٹاسک مکمل نہ ہونے کے بارے میں تنبیہہ بھی جاری کر چکی تھی۔

شیئر: