Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں چینی مسافروں کا سامان ضبط، ’کوئی ہماری مشکلات پر توجہ نہیں دیتا‘

لاہور ایئرپورٹ پر کسٹمز حکام نے چینی مسافروں کا سامان ضبط کر لیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
لاہور ائیرپورٹ پر بدھ کی رات دبئی سے آنے والے چند چینی مسافروں کے سامان کا ایک بڑا حصہ کسٹمز حکام نے اپنی تحویل میں لے کر بحق سرکار ضبط کر لیا۔
جن چینی مسافروں کا سامان کسٹمز نے ضبط کیا وہ لاہور میں ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔
چینی مسافروں نے کئی گھنٹے اپنا سامان چھڑوانے کے لئے لاہور ایئرپورٹ پر حکام سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم ان کا سامان انہیں ایک تحریری میمو پر اس ضبطگی کی وجوہات تحریر کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق یہ سامان لانا غیرقانونی ہے۔
کسٹمز حکام کے مطابق چینی باشندے اگر چاہیں تو عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں یا پھر ملک سے واپس جاتے ہوئے وہ یہ سامان لے سکتے ہیں۔ جو سامان ضبط کیا گیا اس میں گوشت اور مشروبات شامل تھے۔
ڈپٹی کمشنر کسٹمز لاہور ایئرپورٹ مدثر رفیق کہتے ہیں کہ ’یہ دبئی سے ایک فلائٹ ای آر 724 آ رہی تھی جس میں یہ چینی شہری بھی سفر کر رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مسافروں نے اپنے اضافی سامان کا کرایہ بھی ایئرلائن کو ادا کیا تھا۔ ہماری ٹیموں نے جب چیک کیا تو اس میں بہت ساری چیزیں غیرقانونی تھیں۔ کوئی 220 کلو گوشت تھا جو پاکستان میں لانا ممنوع ہے۔ اسی طرح کچھ مشروبات تھے۔ اگر ہم ان کو جانے دیتے تو یہ ایک طرح کی سمگلنگ ہوتی اس لیے ان کا سامان ضبط کیا گیا۔‘
ڈپٹی کمشنر کسٹمز کے مطابق ’کسی بھی ملک میں داخلے کے وقت کسٹمز حکام سامان کا جائزہ لینے کے مجاز ہوتے ہیں، یہ ساری کارروائی قانونی تھی۔‘
پاکستان میں جب سے سی پیک پراجیکٹس کا آغاز ہوا ہے بڑی تعداد میں چینی شہری جن میں سرمایہ کار بھی شامل ہیں پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم مختلف ثقافت ہونے اور اس سے جڑی قانونی پیچیدگیوں کے باعث وہ مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔
لاہور میں کئی برس سے ہوٹلنگ کے شعبے سے وابستہ ایک چینی شہری چیانگ  نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے تو طویل عرصہ ہو گیا ہے پاکستان میں رہتے ہوئے اور میں اس کلچر سے مانوس ہو چکا ہوں۔ لیکن جو لوگ نئے آتے ہیں اور ان سے ملاقات ہوتی ہے یا وی چیٹ کے گروپس میں بات ہو رہی ہوتی ہے تو زیادہ تر شکوے شکایتیں ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیانگ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لوگوں کا خیال ہے کہ سیاحت اور کاروبار کے لیے ضروری ہے کہ باہر سے آنے والوں کو سہولیات دی جائیں اور قوانین میں کم از کم کھانے پینے کی چیزوں کی حد تک چھوٹ دی جائے۔ کئی دفعہ ان موضوعات پر حکام سے بات ہوتی ہے لیکن کوئی اس پر زیادہ توجہ ہی نہیں دیتا۔‘

چینی شہری اپنے ساتھ گوشت اور مشروبات لائے تھے جو سامان میں لانا ممنوع ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

خیال رہے کہ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں لگ بھگ 50 ہزار چینی باشندے قیام پذیر ہیں۔ اور ان کی سب سے زیادہ تعداد کراچی میں رہائش پذیر ہے۔
گزشتہ دنوں چند چینی باشندوں نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی جس میں کئی طرح کے الزامات عائد کیے گئے اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ مداخلت کرے۔ اس درخواست میں پولیس پر بھتہ خوری کا  الزام بھی عائد کیا گیا تاہم قانونی نقائص کی وجہ سے اس درخواست کو اب واپس لے لیا گیا ہے۔  
صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ ان کے ذمے صرف چینی باشندوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے جس کی مکمل کوشش کی جاتی ہے۔ باقی معاملات اور قوانین کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے۔
ترجمان پنجاب حکومت عظمی بخاری کا کہنا ہے کہ ’چینی شہری ہمارے لیے معزز ہیں اور حکومت کی اولین ترجیح ان کی حفاظت ہے اور اس کے لیے ایک مکمل ضابطہ اور پروٹوکول موجود ہے۔ ہماری ذمہ داری صرف اس حد تک ہے۔‘

شیئر: