بنگلہ دیش کو فوجی حکمرانی سے نجات دلانے والی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے بعد ان کے اقتدار کا سورج پیر کو اچانک غروب ہو گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیر کو مظاہرین کی بڑی تعداد نے جب دارالحکومت ڈھاکہ میں حسینہ واجد کے محل کا رخ کیا تو اس کے کچھ وقت بعد ان کے ملک چھوڑ جانے کی خبریں نشر ہونا شروع ہو گئیں۔
شیخ حسینہ واجد کا 15 سالہ دور اقتدار جہاں بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کا ایک حوالہ بنا وہیں ان پر سیاسی حریفوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دبانے کے الزامات بھی لگتے رہے۔
رواں برس جولائی میں بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے طلبہ نے سرکاری نوکریوں میں جنگ آزادی کے سپاہیوں کی بچوں کے کوٹے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کیے جو بعد میں پرتشدد احتجاج کی صورت اختیار کر گئے۔
مظاہرین پر پولیس اور حکمراں جماعت کے حامی طلبہ کی جانب سے حملوں کے بعد عالمی سطح پر حکومت کے ان اقدامات کی مذمت کی گئی۔
76 سالہ مطلق العنان حسینہ واجد رواں برس جنوری میں پانچویں مرتبہ الیکشن جیت کر وزیراعظم بنی تھیں لیکن اپوزیشن نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس الیکشن کے بارے میں مبصرین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ آزاد انتخابات ہیں اور نہ ہی منصفانہ۔
ناقدین نے ان کی حکومت پر مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے قتل سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا تھا۔
بنگلہ دیش کو آزادی دلوانے والے انقلابی کردار شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی حسینہ واجد نے ایک ایسے ملک کی معاشی ترقی کی میں کردار ادا کیا جسے ایک مرتبہ امریکی سیاست دان ہنری کسنجر نے ناقابل تلافی ’باکسٹ کیس‘ کے قرار دیا تھا۔
شیخ حسینہ واجد نے گزشتہ برس بھی بنگلہ دیش کو ایک ’خوشحال اور ترقی یافتہ ملک‘ میں بدلنے کا وعدہ کیا تھا لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ نوجوان بنگلہ دیشی بے روزگار ہیں۔
بنگلہ دیش معاشی اٹھان
شیخ حسینہ واجد جب 27 برس کی تھیں تو باغی فوجی افسروں نے 1975 میں ان کے والد اور اس وقت کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان اور ان کی والدہ اور تین بھائیوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس وقت شیخ حسینہ بیرون ملک سفر کر رہی تھیں۔
اس واقعے کے چھ برس بعد شیخ حسینہ واجد اپنے والد کی عوامی لیگ پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے واپس آئیں۔ انہوں نے ایک دہائی تک طویل جدوجہد کی جس میں طویل عرصے تک گھر میں نظربندی بھی شامل تھی۔
حسینہ واجد نے 1990 میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد کو اقتدار سے ہٹانے میں مدد کے لیے خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ساتھ فوج کا ساتھ دیا۔
لیکن خالدہ ضیا کے ساتھ وہ زیادہ عرصہ تک نہ چل سکیں۔ اس کے بعد ان دونوں کی مخاصمت نے بنگلہ دیش کی سیاست پر غلبہ حاصل کر لیا۔
حسینہ واجد پہلی مرتبہ 1996 میں وزیراعظم بنیں لیکن اس کے پانچ برس بعد انتخابات میں وہ خالدہ ضیا سے ہار گئیں۔
ان دونوں کو 2007 میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی بغاوت کے بعد بدعنوانی کے الزام میں قید کیا گیا تھا۔
اس کے اگلے برس انہوں نے الیکشن لڑا جس میں حسینہ واجد نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ اس وقت سے آج تک اقتدار میں تھیں۔
دوسری جانب 78 سالہ خالدہ ضیا صحت کے مسائل کا شکار ہیں اور وہ 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد بی این پی کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ہسپتال میں قید ہیں۔
بنگلہ دیش کی معاشی ترقی میں گارمنٹس ایکسپورٹ انڈسٹری کا بہت زیادہ کردار ہے اور اس میں بڑی تعداد میں خواتین کارکن کام کرتی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کے حامی بنگلہ دیش کو اقتصادی عروج تک پہنچانے پر انہیں سراہتے ہیں۔
دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک بنگلہ دیش نے 1971 میں پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی۔ سنہ 2009 کے بعد سے اس کی شرح نمو میں سالانہ اوسطاً چھ فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
معاشی ترقی کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں غربت میں کمی آئی ہے اور اس کے 17 کروڑ افراد میں سے 95 فیصد سے زیادہ کو اب بجلی کی سہولت حاصل ہے اور اس ملک نے فی کس آمدنی کے لحاظ سے 2021 میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
شیخ حسینہ واجد کو مسلم اکثریتی ملک میں اسلام پسند عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن کے لیے بھی سراہا گیا جب 2016 میں پانچ بنگلہ دیشی انتہا پسندوں نے مغربی تارکین وطن میں مقبول ڈھاکہ کے ایک کیفے پر دھاوا بول کر 22 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اختلاف رائے پر قدغنیں
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں غصے کی لہر پیدا ہونے کے علاوہ امریکہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
بنگلہ دیش میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران پانچ سرکردہ اسلام پسند رہنماؤں اور حزب اختلاف کی ایک سینیئر شخصیت کو بھی پھانسی دی گئی۔
ان پر الزام تھا کہ وہ سنہ 1971 کی جنگ آزادی کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
ان شخصیات کے عدالتی ٹرائلز کے دوران بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور جھڑپیں بھی ہوئیں۔
شیخ حسینہ واجد کے مخالفین نے ان ٹرائلز کو ایک مذاق اور اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر کی جانی والی کارروائی قرار دیا تھا۔
امریکہ نے 2021 میں بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز کی ایک ایلیٹ برانچ اور اس کے سات اعلیٰ افسران پر انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کے الزام میں پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔
شیخ حسینہ واجد نے بڑھتے ہوئے مظاہروں کے دوران اصرار کیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے لیے کام کیا۔ انہوں نے دارالحکومت ڈھاکہ کے ان علاقوں کا دورہ بھی کیا جو گزشتہ ماہ شدید بے دامنی کے دوران تباہ ہوئے تھے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’15 برسوں میں، میں نے اس ملک کو تعمیر کیا ہے۔ میں نے عوام کے لیے کیا کچھ نہیں کِیا؟‘